پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بجلی کے بحران سے گزر رہا ہے ، جس کی وجہ سے بجلی کی بندش اور لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 8سے 12گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے ملکی معیشت اور ترقی بے حد متاثر ہو رہی ہے اور اس بحران نے امیر ہو یا غریب ہر ایک کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توانائی کا یہ بحران رواں سالوں میں کیوں شدت اختیار کرگیا ؟اس کی اولین وجہ سال08۔2007ء میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے بجلی پر آنے والی لاگت میں بتدریج اضافہ ہوا۔ اسی طرح سال 2009ء اور 2010 میں بھی تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر رہیں ۔ اسی طرح(شوکت ترین فارمولے کے مطابق) شرح مبادلہ میں کمی یعنی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث برآمد کئے جانے والے تیل کی قیمت بڑھتی رہی ۔ این ایف سی ایوارڈ کے بعد پٹرولیم کے شعبے پر ٹیکس آمدنی کے بڑھتے ہوئے انحصار نے بھی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔جبکہ فرنس آئل کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے،2جولائی2007ء کو فرنس آئل کی قیمت 21,259روپے فی ٹن تھی اور اس کی موجودہ قیمت 75,000روپے فی ٹن ہے ۔بجلی کے ایک یونٹ کی پیداوار پر اوسطاً215گرام فرنس آئل کی لاگت آتی ہے۔ اس طرح ماضی کے مقابلے میں بجلی کے ایک یونٹ پر آنے والی لاگت4.57روپے سے بڑھ کر16.1روپے ہو گئی ہے جو کہ 253گنا بڑھ گئی ہے تاہم حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اسی تناسب سے اضافہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح پیداوار میں اضافہ ، ترسیل اور تقسیم کے دوران ہونے والا ضیاع اور بجلی کی چوری بھی بحران میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں کمی کے سبب گشتی قرضے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بجلی کے بلوں کی وصولی کے تناسب میں کمی بھی بجلی کی پیداوار میں کمی کی تیسری اہم وجہ ہے ۔
بجلی بحران کا چوتھا اور سب سے اہم سبب گیس کی فراہمی میں بڑی حد تک کی جانے والی کمی ہے جس کی وجہ سے بھی بجلی کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور پیداوار پر آنے والی لاگت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ سال 2005ء میں بجلی بنانے کیلئے 504/ارب معکب فٹ گیس بجلی کی پیداوار کیلئے مختص کی گئی تھی جس سے حاصل ہونے والی بجلی ملکی پیداوار کا 43.5فیصد بنتی تھی تاہم سال 2012ء میں بجلی کیلئے مختص کی گئی گیس میں کمی کر کے اسے 358.4/ارب معکب فٹ کردیا گیا جس سے حاصل ہونے والی بجلی ملکی پیداوار کا 27.8فیصد حصہ بنتا ہے جب کہ دوسری جانب سال 2005ء سے 2012ء تک ٹرانسپورٹ کیلئے مختص کئے گئے گیس کے کوٹے میں بھی اضافہ سے یہ 24.5/ارب معکب فٹ سے بڑھ کر 119/ارب معکب فٹ ہو گیا اور اس طرح ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والی گیس کا حصہ2.1 فیصد سے بڑھ کر9.24فیصد تک ہوگیا ہے۔ بجلی کی پیداوار میں بہتری کیلئے کون سے عوامل کار آمد ہوسکتے ہیں؟
بجلی کے شعبے کو گیس کی دستیابی میں کمی کی وجہ سے سال 2005ء کے مقابلے میں 2012ء کے دوران بجلی کی پیداوار 15.9/ارب یونٹ کم رہی ۔ اسی طرح سال 2005ء میں فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار 13.5/ارب یونٹ تھی جو کہ سال 2012ء میں بڑھ کر33.5/ارب یونٹ ہوگئی ۔ دوسری جانب سال2005ء میں گیس سے بجلی کی پیداوار 43.5/ارب یونٹ تھی جو کہ سال 2012ء میں کم ہوکر 26.7/ارب یونٹ رہ گئی ۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ سات سالوں کے دوران پاکستان گیس سے پیدا کی جانے والی سستی بجلی (یعنی فی یونٹ پانچ سے چھ روپے )کے بجائے فرنس آئل سے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی کی جانب بڑھا ہے جس کی لاگت فی یونٹ 16سے 17روپے ہے ۔ یہ تمام عوامل بجلی کے بحران کو مزید بڑھا رہے ہیں۔جیسا کہ قدرتی گیس سے پیدا کی جانے والی بجلی پر 10سے 11روپے فی یونٹ کی کم لاگت آتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ گیس سے پیدا کی جانے والی بجلی میں 15کروڑ 90 لاکھ یونٹ کمی آنے کی وجہ سے ملک کو سالانہ 150سے لیکر 175/ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
بجلی کی پیداوار پر آنے والی لاگت میں اضافے نے گزشتہ حکومت کو بجلی کے نرخوں میں 100فیصد اضافہ کرنے پر مجبور کیا ۔ شواہد کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کی چوری میں ایک ربط قائم ہے ۔ ایسی صورتحال میں کہ جب بجلی فراہم کرنے والے ادارے صارفین کو بجلی کی بلا تعطل فراہمی میں ناکام رہیں اوربجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تو یہ بجلی کی چوری کو مزید تقویت بخشے گا چاہے ایسا کرنے سے کمپنیوں کی آمدنی میں کچھ اضافہ بھی ہو تاہم میرے مطابق صرف بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی کبھی ہو سکتاہے اور اگر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا انتہائی ضروری ہو تو اسے بجلی فراہم کرنے والے اداروں کی کارکردگی سے مشروط کیا جائے۔ فوری طور پر بجلی کے بحران کے خاتمے کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے؟
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے مقابلے میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو گیس کی فراہمی بڑھا دی گئی ہے جس سے بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے ، ہمیں سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گیس کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے اور ایسا انتظامی طور پر یا سی این جی کی قیمتوں کے تعین کے طریق کار کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ حکومت مالی سال 2013ء اور2014ء کے بجٹ میں سی این جی کی قیمتوں پر بھاری ایکسائز ڈیوٹی لگا کر اس کی قیمتوں کو پٹرول کی قیمتوں سے کچھ بڑھا سکتی ہے ۔ جس کے بعد عوام کو اپنی ٹرانسپورٹ میں سی این جی استعمال کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ دوسرا کرنے کا کام یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے سے بچائی جانے والی گیس کو بجلی پیدا کرنے والے ایسے پلانٹس کو فراہم کیا جائے جن کی کارکردگی کی سطح 50 فیصد سے زائد ہو۔ اس طرح کرنے سے ملک میں 17.5/ارب یونٹ مزید بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔
روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 50کروڑ معکب فٹ گیس (جو کہ ملک میں گیس کی پیداوار کا 12فیصد حصہ بنتا ہے اور سوئی سے حاصل ہونے والی گیس کی پیداوار کے برابر ہے) او جی ڈی سی کی جانب سے قانونی معاملات کے باعث پاور سسٹم کو موصول نہیں ہورہی ہے ، حکومت کے کرنے کا تیسرا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ اس طرح کے کیس فوری طور پر حل کرے تاکہ سوئی سے حاصل ہونے والی گیس کے برابر گیس سسٹم میں داخل ہو سکے اور سستی بجلی کی پیداوار کو ممکن بنایا جاسکے۔ چوتھی تجویز، ہمارے ملک میں 3500سی این جی اسٹیشن موجود ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام اسٹیشنوں کو خریدنے پر غور کرے جس میں سے ایک اسٹیشن کی قیمت 10سے 20ملین تک ہے اور اس پر قومی خزانے سے 35سے لیکر 70بلین روپے کی لاگت آسکتی ہے تاہم ایسا کرتے ہوئے حکومت بجلی کے زر تلافی کی مد میں سالانہ100بلین روپے کی بچت کر سکتی ہے۔ پانچویں تجویز ، بجلی کی ترسیل کے محکموں میں کام کرنے والے ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی کو بھی فوری بند کرنا چاہئے جو کہ بجلی چوری کا ایک اہم سبب بنتا ہے ۔ چھٹی تجویز ، حکومت کو چاہئے کہ وہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افراد پر مشتمل ٹیم سامنے لائے اور اہل افرادکو کمپنیوں کا سربراہ اور ڈائریکٹر مقرر کیا جائے اور ان کے لئے اہداف کا تعین کیا جائے۔ساتویں تجویز ، بجلی کے شعبے کی ریگولیٹری باڈی نیپرا میں بھی پیشہ ور افراد کو تعینات کیا جائے اور انہیں بجلی پیدا کرنے والے آزاد اداروں اور کے ای ایس سی کے تکنیکی آڈٹ کرنے کا ہدف دیا جائے۔ اسی طرح پیپکو اور واپڈا کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کو مستحکم کرنے کیلئے اس میں بھی ماہر معاشیات کی تقرری کی جائے ۔ یہ تمام اقداما ت 100سے لیکر 180دنوں کے عرصے میں کئے جاسکتے ہیں اور ارادے پختہ ہوں تو لوڈ شیڈنگ میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔ فی الحال نئی حکومت بجلی کے بحران کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے پوری طرح آمادہ نظر آتی ہے ۔ اس کام کر سر انجام دینے کیلئے مختص کئے جانے والے افراد کیلئے مذکورہ تجاویز کار آمد ثابت ہوسکتی ہیں۔