• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ) 

دریائے راوی کا پانی اتنا شفاف ہوتاتھا کہ لوگ یہاں نہاتے اور کپڑے بھی دھویا کرتے تھے۔ ہم خود جب راوی میں کشتی چلاتے تو اکثر پانی میں مچھلیاں نظر آتی تھیں جو کبھی کبھار ہمارے چپو سے ٹکرا کر کشتی میں آ گرتی تھیں۔ راوی دریا کے کنارے اور گھوڑا اسپتال کے قریب بھنگ کے پودے تو ہم نے اپنے بچپن میں دیکھے ہیں۔دریا کے کنارے کئی جھونپڑیوں میں بھنگ کی سردائی بنائی جاتی تھی۔ شہر میں بھنگ، افیون اور شراب کی کئی دکانیں تھیں۔ شہر میں کوئی ہنگامہ ہوتا تو سب سے پہلے شراب کی دکانوں کو توڑا جاتا۔ارے ہاں یاد آیا کہ جناب بات ہورہی تھی لاہور میں لانڈری کے حوالے سے میو اسپتال میں لال اینٹ کی عمارت میں لانڈری ہوا کرتی تھی۔ انگریزوں نے ولایت سے اس کی مشینری منگواکر 1870ء میں نصب کی تھی۔ یہ لانڈری 2010ء تک بڑے احسن انداز میں کام کر رہی تھی۔ گوروں نے اسپتال کے آغاز سے قبل ہی لانڈری اور انسٹرلیٹر بھی نصب کردیا تھا۔ یہ برصغیر کا پہلا اسپتال تھا جہاں انسٹرلیٹر لگا ہوا تھا جوسرجیکل فضلے کو تلف کرتا تھا۔

ہم نے میواسپتال کی لانڈری کئی مرتبہ دیکھی بلکہ لانڈری کے پاس ایک لمبی سی چمنی بھی لال اینٹ کی ہی بنی ہوئی تھی جس سے دھواں خارج ہوتا تھا۔ اس لانڈری میں اسپتال کے مریضوں کے کپڑے، ڈاکٹروںکے سفید کوٹ، نرسوں کے فراک اور کپڑے، آپریشن تھیٹرز کی چادریں دھوئی جاتی تھیں اور انہیں جراثیم سے پاک کیا جاتا تھا۔ میو اسپتال کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں کچھ ایسے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس بھی آئے جنہوں نے اس کی تاریخی عمارتوںکو گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔مردانہ وارڈ، ڈاکٹروں کے کوارٹرز اور ایم ایس کی تاریخی رہائشیں گرا دی گئیں۔ ایک ایسا ایم ایس بھی آیا جو تبلیغ تو بہت کرتا تھا، درس بھی بہت دیتا تھامگراس نے میواسپتال، لیڈی ایچیسن اسپتال اور لیڈی ولنگڈن اسپتال کو محکمہ صحت سے ساز باز کرکے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے علیحدہ کرا دیا۔ دنیا میںکہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ٹیچنگ اسپتال میڈیکل کالج کے ماتحت ہونے کے بجائے محکمہ صحت کے براہ راست ماتحت ہو۔ حالانکہ ٹیچنگ اسپتال سے منسلک میڈیکل کالج/ یونیورسٹی کا پرنسپل/ وائس چانسلر اسپتال کا چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہوتا ہے۔ اس ایم ایس نے کمائی کے چکر میں وہ لانڈری گرا دی۔ کسی بھی پرانی عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانے میں بڑی کمائی ہوتی ہے۔ پہلے ملبہ فروخت کرو، پھر جس کو نئی عمارت کا ٹھیکہ دو، اس سے مال کمائو۔ اس تاریخی لانڈری کی انتہائی مہنگی اور قیمتی مشینری بھی غائب کر دی گئی حالانکہ یہ مشینری ولایت سے انگریز 1870ء میںلائے تھے۔ وہ قیمتی مشینری کس کو فروخت کی گئی؟انسٹرلیٹر کی مشین کہاں گئی؟ کس کس کی میو اسپتال کی پرانی اور تاریخی عمارتیں جو کہ تاریخی ورثہ تھیں گرانے کے بعد کمائی ہوئی؟ اگر ہم ذکر کریں گے تو شخصے ؎

نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

اس تاریخی اسپتال کی ہر تاریخی چیز کو غائب کر دیا گیا۔ توڑ دیا گیا‘ ہم نے خود کبھی لارڈ میو کا مجسمہ اس اسپتال کے مرکزی ہال کے درمیان دیکھا تھا۔ وہ مجسمہ بھی غائب کردیا گیا۔ آج تک اس پر کسی نےبات نہیں کی۔ پھر اس اسپتال کا تاریخی کلاک یعنی گھڑی غائب کردی گئی اور تو اور ایک سابق ایم ایس اس اسپتال میں انگریزوں کے دور کی نصب انگیٹھیاں تک لے گیا۔یہ بڑی خوبصورت انگیٹھیاں تھیں جو ہم نے خود دیکھی تھیں۔ اس اسپتال کا اے وی ایچ (البرٹ وکٹر اسپتال یعنی گورا وارڈ جہاں صرف انگریز داخل ہو سکتے تھے) وہاں پر گہرے گرین اور سفید رنگ کی ٹائلیں انگیٹھیوںمیں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ ٹائلیں انگلستان سے بن کر آئی تھیں اور SHANKSکی ٹونٹیاں اور فلش سسٹم لگا ہوا تھا۔ انگیٹھیوں کے آگے پیتل کی جالی اور حفاظتی حصار تھا۔ ارے سب کچھ تو غائب کر دیا گیا۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی بے ایمان ایم ایس یہ سب کچھ کرتا رہا اور اسپتال کا عملہ خاموش تماشائی بنا رہا۔

میو اسپتال میں نرسوں کے تین تاریخی ہوسٹل ہیں۔ ایک ہوسٹل نیوٹن ہال جس کو جان بوجھ کر تباہ وبرباد کیا گیا۔ ہم ایک مرتبہ اس تاریخی نیوٹن ہال پر فیچرکرنے گئے تو دیکھا کسی کم ظرف نے نیوٹن ہال کی بنیاد وں پر باقاعدہ پانی کا پائپ چھوڑ رکھا تھا جس کی نشاندہی ہم نے کی تو اس وقت کے ایم ایس کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے۔ یہ تاریخی ہال ایک ورثہ ہے جہاں کبھی ایف سی کالج کی بھی کلاسیں ہوتی رہی ہیں۔ نیو ٹن ہال ایف سی کالج کے حساب کے ایک پروفیسر کے نام پر ہے۔اس میں نرسیں 90برس تک رہائش پذیر رہیں اور اب بھی کچھ نرسیں رہتی ہیں۔ اگر اس کی تھوڑی سی مرمت کروا دی جائے تو یہ مزید 100 برس تک چل سکتا ہے۔ بقول نیر علی دادا یہ عمارت بڑی مضبوط اور خوبصورت ہے، اگر حکومت تھوڑی سی توجہ دے دے تو آج بھی رہائش کے قابل ہے۔ مگر اسپتال کا ایک مافیا آج بھی اس کو گرانے کے چکر میں ہے۔ لکڑی کی بلند چھتیں، خوبصورت لکڑی کی کھڑکیاں اور ان پر خوبصورت شیڈ، کیا عمارت ہے۔ اسپتال کے اندر بھی نرسوں کا ایک اور تاریخی ہوسٹل ہے۔ اس کا نام نابھا نرسنگ ہوسٹل ہے، بڑی خوبصورت عمارت ہے 100 برس سے زائد پرانی ہے ۔ اس طرح میو اسپتال میں ایک اور تاریخی عمارت ہے جو ہمیں بہت پسند ہے اس تاریخی عمارت میں اسکول آف نرسنگ 1883ء میں قائم کیا گیا تھا اور نرسوں کو تین سالہ جنرل نرسنگ کی تربیت دی جاتی تھی۔ اس عمارت میں نرسیں رہائش پذیر بھی ہیں۔ یہ عمارت آج تک یعنی 138 برس سے زیر استعمال ہے ‘ اس میں انتظامیہ کے بعض دفاتربھی ہیں‘ اس قدیم عمارت کے فرش دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین