• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی نظام حکومت میں ’’ون مین ‘‘ شو کا کوئی تصور نہیں ہوتا، اس میں پوری حکومت ایک ٹیم کے طور پر کام کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران کی حکومت کو قائم ہوئے تین سال ہونے کو ہیں‘ اس دوران وزیر اعظم نے اپنی ٹیم میںاتنی تبدیلیاں کیں کہ اب تو یہ بھی یادنہیں کہ وہ کتنی بار کابینہ میں رد و بدل کر چکے ہیں۔ غالباً انہوں نے چوتھی یا پانچویں بار اپنی ٹیم تبدیل کی ہے ۔ ’’بے چاری ‘‘ وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان توبار بار تبدیل ہوا۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کامنصب سنبھالا تو وزارت اطلاعات و نشریات کیلئے ان کی نظر انتخاب فواد حسین چوہدری پر پڑی ۔ فواد حسین چوہدری بھی عمران خان کے مزاج شناس تھے‘ انہوں نے شروع شروع میں صبح شام سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے کر کپتان کو بہت خوش تو کیا لیکن جب مسلم لیگی فوج ظفر موج کے ہاتھوں حکومت کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اپنی میڈیا ٹیم تبدیل کر دی‘فواد حسین چوہدری اچھی خاصی وزارت اطلاعات چلا رہے تھے، ان سے وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان واپس لینے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں دکھائی دی۔ مریم نواز ، مریم اورنگ زیب اور عظمیٰ بخاری کی گولہ باری کا جواب دینے کے لئے فردوس عاشق اعوان کو میدان میں اتارا گیا جو پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر اطلاعات و نشریات رہ چکی تھیں لیکن بہت جلد وزیر اعظم ان کے جارحانہ اندازِ بیان بازی سے مطمئن نہ رہے اور نامور شاعر احمد فراز کے صاحبزادے سینیٹر شبلی فراز کو ترقی دیکر وزیرِ اطلاعات و نشریات بنا دیا۔ بے بدل شاعر کے بیٹے شبلی فراز اپنے مزاج کے برعکس سیاسی مخالفین کی درگت بناتے رہے لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک کپتان کی ’’سیاسی خواہشات ‘‘ پوری نہ کر سکے‘وزیر اعظم نے دوسری بار فواد حسین چوہدری کو وزیر اطلاعات بنا کر گویا اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔ اسی طرح وہ فردوس عاشق اعوان کو وفاق سے ہٹا کر پنجاب میں خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات بنا کر بھی اپنے پہلے اقدام کی نفی کر چکے ہیں۔ کچھ ایسا ہی کھیل فیاض الحسن چوہان کے ساتھ کھیلا گیا کبھی انہیں وزارت اطلاعات سے ہٹا دیا جاتا کبھی انکی وزارت تبدیل کر دی جاتی۔ وزارت اطلاعات و نشریات کسی حکومت کا چہرہ دکھاتی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات جتنا کم بولے گا اتنا ہی امن و سکون رہے گا ۔حکومتی ترجمان جس لب و لہجہ میں وزیر اعظم کے سیاسی مخالفین کو مخاطب کرے گا اسی زبان میں اپوزیشن جواب دیتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیز فائر سے سیاسی ماحول بہتر ہوگا۔ فواد حسین چوہدری جہلم کے مسلم لیگی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں اگر وہ اپوزیشن سے لڑائی کی بجائے صلح جوئی کا راستہ اختیار کریں تو بہت جلد ملک میں سیاسی امن قائم ہو جائے گا۔

وفاقی کابینہ میں دوسری بڑی تبدیلی وزیر خزانہ کی ہے ۔وزیر اعظم نے حکومت سنبھالتے ہی اسد عمر کو وزیر خزانہ بنا دیا ۔عمران خان نے ان سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن وہ جلد ہی ان کی کار کردگی سے مایوس ہو گئے پھر عبد الحفیظ شیخ کو ’’درآمد‘‘ کر کے وز ارتِ خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ۔وزیر اعظم نے ان سے بھی بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن ’’مقروض معیشت ‘‘ کا وزیر خزانہ ملکی معیشت میں انقلاب برپا نہ کر سکا ۔اپوزیشن جماعتوں نے مل کر عبد الحفیظ شیخ کواسلام آباد کی سینیٹ کی نشست سے رکن منتخب نہ ہونے دیا جو بالآخر ان کے وزارت خزانہ سے ہٹائے جانے کی بڑی وجہ بن گئی ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں رکن پارلیمنٹ منتخب نہ ہونے پر ان کے خلاف کیس زیر سماعت تھا قبل اس کے کہ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پروزارت خزانہ کے منصب سے ہٹا دیا جاتا ،وزیر اعظم نے خود ہی انہیں اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا ۔جب کہ حکومتی ترجمانوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کوان کے ہٹائے جانے کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ 18روز تک وزارت خزانہ کا قلمدان حماد اظہر کے پاس رہا لیکن پھر ان کی جگہ شوکت ترین کو وفاقی وزیر بنا دیا گیا ۔ انہوں نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے حلف تو اٹھا لیا ہے لیکن6ماہ میں انہیں پارلیمنٹ کا رکن بننا لازمی امر ہے بصورت دیگر انہیں بھی عبدالحفیظ شیخ کی طرح وزارت کا قلمدان چھوڑنا پڑ ے گا۔ شوکت ترین تحریک انصاف حکومت کے چوتھے وزیرخزانہ ہیں۔ 11سال قبل پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وزارت خزانہ کا قلمدان ان کے پاس رہ چکا ہے۔ سر دست پوری حکومت شوکت ترین کے گیت گا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے شوکت ترین کی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے وہ انہیں 35سال سے جانتے ہیں‘ وہ شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز کے رکن بھی رہے ہیں۔ شوکت ترین نے بھی موجودہ حکومت کا حصہ بننے سے قبل یہ بات برملا کہہ دی ہے کہ موجودہ حکومت کی سمت درست نہیں لہٰذا اب انہیں وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسی معیشت کی سمت درست کرنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے مہنگائی کی وجوہ ختم کرنا ہوںگی جب موجودہ حکومت بر سر اقتدار آئی تو ملک پر 25ہزار ارب روپے کا قرض تھا جو اب بڑھ کر 38ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، پاکستان کا اصل مسئلہ روپے کی قدر میں کمی کے لئے آئی ایم ایف کا دبائوہے۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین ارشد حکیم نے ایک محفل میں برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ’’ محمد اسحٰق ڈار نے دبئی میں مذاکرات میں آئی ایم ایف کے دبائو پر روپے کی قدر کم کرنے سے انکار کر دیا تو آئی ایم ایف نے اپنی شرائط واپس لے لیں‘ پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ کو بھی یہی طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا ۔

تازہ ترین