• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت خداداد پاکستان میں ان دنوں اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق عجیب و غریب حالات و واقعات رونما ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ملکی معیشت ہو یا روزگار، تعلیم ہو یاصحت کی سہولتیں، یا پھر خستہ حال عوام کو انصاف اورامن و امان کی فراہمی کے خوشنما حکومتی دعوے، کچھ بھی تو ٹھیک نہیں۔ہر شے حالت نزع میں آخری سانسیں گنتی ِنظر آتی ہے۔یقیناً یہ محض حوادث ِزمانہ نہیں بلکہ ان سب کے پس ِ پردہ ارباب ِ اختیار و اقتدار کی لالچ و حرص اور نااہلی و ناکامی کی طویل داستانیں موجزن ہیں۔تمام سرکاری و غیر سرکاری اعدادو شمار ببانگِ دہل اسی حقیقت ِ حال کی عکاسی کرر ہے ہیں۔ ویسے اگراُن عوامل کو نگاہ ِ بینا سے جانچنے کی کوشش کریں، جنہو ں نے ایک عام پاکستانی کو ان دِگرگوں حالات تک پہنچا یا ہے تو یہ امر طشت ازبام ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گاکہ اسکا براہِ راست ذمہ دار درحقیقت اشرافیہ کا وہ طبقہ ہے جو ملکی وسائل و ذرائع کے تمام سوتوں پر قابض ہے۔پاکستان میں اس وقت بے روزگاری بامِ عروج تک پہنچ چکی ہے،عام پاکستانیوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے نظر آتے ہیں۔ملکی اداروں کی اہم سیٹوں پر بعض سرکاری اداروں کے ریٹائرڈ افسران پنشن لینے کے باوجود بڑی بڑی تنخواہوں پر براجمان نظر آتے ہیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہوگا پاکستان، چند ہزار افراد پر مشتمل اشرافیہ جو بیوروکریسی، پولیس، سیاستدانوں اوربعض دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل ہے، کے لئے جنت سے کم نہیں۔

تاریخ ِ انسانی میں فراعین ِ مصر نے جہاں اہرامِ مصر کی شکل میں اپنے پیچھے عظیم الشان نشانات چھوڑے، جنہوں نے آج بھی ایک عالم کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے وہاں ان پر یہ الزام بھی تواتر سے لگایا جاتا ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کے دوران فراعین ِ مصر نے لاکھوں مزدور غلاموں پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ بھی توڑےکہ ہزاروں مزدور لقمہ اجل بن گئے۔ تاہم زیادہ تر الزامات میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی دکھائی دیتی ہے۔ درحقیقت اہراموں کی تعمیر کے وقت انکے قریب مزدوروں کی درجنوں بستیاں تعمیر کی گئیں جہاں انکی رہائش و کھانے پینے کا بندوبست بھی تھا۔تاہم اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ مزدورں کو بس اتنا کھانا ہی دیا جائے جس سے وہ اگلے بیس پچیس سال زندگی کی ڈور تھامے اہرام کی تعمیر میں ہی مصروف عمل رہیں۔ یہی حال کچھ ان دنوں ہمیں پاکستان میں بھی نظر آتا ہے جہاں کی اکثریت اس وقت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے میں کچھ اس طرح مجبور و لاچار ہے کہ وہ مہینہ بھر جو کچھ بھی کماتی ہے وہ بھاری یوٹیلیٹی بلز اور چالیس سے زائد قسم کے بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں حکومتی خزانے میں جمع کرادیتی ہے جو بالآخر کسی نہ کسی شکل میں حکمران طبقہ کی جیب میں چلا جاتا ہے ۔ گویا عام پاکستانی ایک ایسی مشین بن چکے ہیں جو سارا مہینہ کما کر سب کچھ حکومت کے حوالے کر دیتے ہیں اور خود جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی جنگ میں ایک بار پھر مصروف عمل ہوجاتے ہیں۔ویسے تاریخ ایسے کسی طرز حکمرانی کا کچھ اچھا احوال پیش نہیں کرتی۔

اطلاعات یہی ہیں کہ حکومت کے ہم رکاب مقتدر حلقوں نے پی ڈی ایم سے زیادہ مسلم لیگ نواز کو ’تتر بتر‘ کرنے کی ٹھان لی ہے۔باخبر دوست بتاتے ہیں کہ پہلی کوشش تو یہی کی جارہی ہے کہ نواز شریف کی طرح مریم نواز شریف کو بھی جلد از جلد بیرون ملک روانہ کردیا جائےاور اگر وہ راضی نہیں ہوتیں تو پھر وہ نئے مقدمات کا سامنا کرنے اور گرفتاری کے لئے تیار رہیں۔ شنید ہے کہ مقتدر حلقے موجودہ حکومت کے باقی بچ جانے والے آئندہ دو سوا دو سال میں ملک کی سڑکوں پر احتجاجی سیاست کسی بھی صورت دیکھنا نہیں چاہتے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات کا طے ہونا اور اسکے نتیجے میں پی پی پی پر ہونے والی نوازشات کے سلسلے کے مستقبل قریب میں بڑھنے کے امکانات اسی خوف کا پیش خیمہ ہیں۔مریم نواز کی نیب میں پیشی کے منسوخ ہونے کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ اگر اس دن کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو جاتا تو ملک خاص طور پر سب سے اہم صوبے میں شدید بدامنی کی صورت حال پیدا ہونے کا قوی احتمال تھا۔

موجودہ حکومت کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے باعث پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مادر پدر آزاد کرنے جیسے اقدامات کی پیش بندی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔پاکستان اسٹیل مل سمیت کئی سرکاری ادارے، موٹر وے سمیت کئی اہم شاہراہیں، حتی کہ ائیرپورٹس تک گروی رکھے جاچکے ہیں۔ غیر ملکی قرضے مزید بھاری قرضے لیکر ادا کرنے کی روش نے ملکی معیشت کا رہا سہا بھر م توڑ دیا ہے۔مہنگائی اپنے عروج پر ہےاور حکومت وقت کا حال یہ ہے کہ لگ بھگ تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اسے تاحال کوئی ڈھنگ کا وزیرِ خزانہ یا مشیر خزانہ نہیں مل پارہا۔ایسے میں پاک چین اکنامک کاریڈورسے لگائی جانے والی اُمیدیں بھی جلد پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ حالات سے باخبر ساتھیوں کا یہی کہنا ہے یہ پروجیکٹ اس وقت انتہائی سست روی کا شکا ر ہے جس پر حکومت چین بھی موجودہ حکومت سے ناخوش نظر آتی ہے۔ایسے میں ملکی معیشت کی درستی کیسے ہوگی، بے روزگاری و غربت اور افلاس کا خاتمہ کیونکر ممکن ہوگا،صحت، تعلیم کے شعبوںاور پولیس میں اصلاحات کا کیا بنے گا؟ یہ سوالات ہیں جو ہنوز حل طلب ہیں۔

تازہ ترین