• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجٹ آیا ہے تو اچھے جذبوں کے جلو میں احتجاج کے قافلے بھی نکلے ہیں۔ پانچ سال کی فاقہ مستی کے بعد عوام نے بجٹ سے بہت ساری توقعات وابستہ کر لی تھیں اور وہ فوری ریلیف کی آس لگائے بیٹھے تھے، مگر بجٹ سازوں نے معاشیات کی سمت درست کرنے، اہلِ پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے اور اچھی حکمرانی کا ماحول پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دی جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے ، مگر فوری طور پر بجٹ کے اعلانات اور عوام کی توقعات میں ایک خلا نظر آتا ہے اور کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جن سے بجٹ کی نمود سے پہلے ہی ایک سوگوار فضا پیدا ہو چکی تھی۔ ہم دس بارہ صحافی اسلام آباد جانے کے لئے لاہور ائیر پورٹ پہنچے اور موسم کی خرابی کے باعث ہمیں پانچ چھ گھنٹے وہاں انتظار کرنا پڑا۔ اِس دوران ہم نے ٹی وی پر فیصل آباد میں پولیس کے مظالم کے اندوہناک مناظر دیکھے جو لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دینے پر تُلی ہوئی تھی۔اِن واقعات نے ہمیں ہلا کے رکھ دیا۔
12جون کی سہ پہر ٹھیک پانچ بجے بجٹ اجلاس شروع ہوا۔ وزیرِ خزانہ کو اپنی جماعت کے ویژن کے مطابق معاشی فلسفے کی تیاری کے لئے صرف سات روز میسر آئے ، مگر اُنہوں نے اور اُن کی ٹیم نے شب و روز کی ذہنی کاوش سے بدترین حالات میں امکانات سے لدا پھدابجٹ پیش کر دیا۔ اِس میں کچھ خامیاں بھی تھیں، لیکن زیادہ تر جرأت مندانہ فیصلے جھلک رہے تھے جو ایک روشن مستقبل کی خوشخبری دے رہے تھے۔ وہ صوابدیدی اختیارات اور وہ اربوں کے صوابدیدی فنڈز جو وزیر اعظم اور وزرائے کرام کو طویل مدت سے دستیاب تھے اور جن کی وجہ سے پورا نظامِ حکومت اچھی حکمرانی سے محروم چلا آ رہا تھا، وہ بیک جنبش قلم ختم کر دیئے گئے۔ جناب وزیر اعظم نواز شریف نے ذاتی مثال قائم کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاوٴس اور وزیر اعظم آفس کے اخراجات میں 45 فیصد کمی کا اعلان کر دیا اور بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات میں 30فیصد تخفیف تجویز کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ غیر معمولی اہمیت کے انقلابی اقدامات ہیں جو نظم حکومت کا بگاڑ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی زندگی میں ایک بہت بڑی صحت مند تبدیلی لا سکتے اور ملکی تعمیر میں زبردست کردار ادا کرنے کی عظیم صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ حکمران اپنے شاہانہ صوابدیدی اختیارات اور وسائل اپنے ہم وطنوں کو لوٹا سکتے ہیں۔ مجھے بجٹ میں یہ انقلابی روح بھی نظر آئی کہ معیشت کی دستاویز بندی کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اِس میں کچھ ایسے اقدامات اور فیصلے تجویز کیے گئے ہیں جن کے ذریعے ہماری معیشت کی ڈوکومینٹیشن (Documentation) بالآخر تکمیل پذیر ہو جائے گی اور بہت بڑی تعداد میں اہلِ ثروت ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے۔
ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک عرصے بعد یہ خوشگوار منظر دیکھنے میں آیا کہ بجٹ کے دوران کوئی ہنگامہ ہوا نہ بجٹ کی کاپیاں تار تار کی گئیں اور بجٹ تقریر پوری دلجمعی اور کامل سنجیدگی سے سنی گئی۔ درمیان میں بعض نکات پر ہلکا پھلکا احتجاج بھی ہوا جو شائستگی کے دائرے میں رہا اور بعض اعلانات ایسے تھے جن پر حکومت اور اپوزیشن کیبنچوں پر بیٹھے ارکانِ اسمبلی نے دل کھول کر داد دی۔ جب وزیرِ خزانہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ہم سرکلر ڈیٹ دو ماہ کے اندر اندر ادا کر دیں گے جو ساڑھے پانچ سو ارب کے لگ بھگ ہے تو ایوان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسرے روز پوسٹ بجٹ بریفنگ میں اُن پر بڑے تندوتیز سوالات ہوئے جن کا جواب اُنہوں نے کمال حساب کتاب سے دیا  مگر اِس مطالبے کی گونج پھیلتی گئی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں گرانی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے اور دودھ، چینی، گھی، دواوٴں اور بجلی پر جو 17فی صد جی ایس ٹی نافذ کیا گیا ہے، اُس پر نظر ثانی ضروری ہے۔ جناب اسحق ڈار جو اقتصادی معاملات پر کامل دسترس رکھتے اور امریکی ڈکٹیشن کو مسترد کرنے کی روایت کے حامل ہیں، اُنہوں نے میڈیا اور سیاسی جماعتوں سے بار بار دردمندانہ اپیل کی کہ مشکل وقت میں قومی یک جہتی اور بالغ نظری سے کام لینا اور پوائنٹ اسکورننگ کے بجائے معیشت کی بحالی کے لئے ہم سب کے لئے کمر بستہ ہو جانا ضروری ہے۔ اُن کی اپیل میں بڑا کرب بھی تھا اور ناقابلِ تسخیر عزم بھی۔ میرے دل سے آواز اُٹھی کہ قوم کو اُن کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے جلد بازی کے مقابلے میں صبر و تحمل کا ثبوت دینا چاہیے، کیونکہ ہم جس جہاز پر سوار ہیں، اُسے ساحلِ مراد تک بخیروخوبی پہنچانے کے لئے ہمیں ایثار اور عزم کے ساتھ جت جانا ہو گا۔ اِس پریس بریفنگ سے میں نے یہ تاثر لیا کہ ہمارے وزیرِ خزانہ کو خوش دلی اور خوش مزاجی کو اپناشعار بنا لینا چاہیے، کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جن سیاسی قائدین کو عظیم کارنامے سرانجام دینا ہوتے ہیں، وہ دلوں کو مسخر کرنے والے رویئے اختیار کرتے ہیں۔
ملکی ترقی کے لئے فزیکل انفراسٹرکچر بڑی اہمیت کا حامل ہے، مگر اُس سے کہیں زیادہ اہم وہ شخص ہے جو اِس انفراسٹرکچر کو بروئے کار لانے کی صلاحیت رکھتا ہے، چنانچہ ہمیں صحت مند سماجی رویوں کی تشکیل اور ذہن کی لامحدود صلاحیت کی نشوونما پر سب سے زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ اس پس منظر میں احسن اقبال نے کہا کہ ہم چھ ماہ کے اندر اندر پلاننگ کمیشن کو کاغذات کے انبار سے نجات دلا دیں گے اور مانیٹرنگ اور فیصلہ سازی کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ اُنہوں نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ ہماری معیشت کی صحت یابی کے لئے کڑوی گولی کا استعمال ناگزیر ہو گیا تھا، ہم نے سمت کا واضح تعین کر لیا ہے اور حکومت کی کریڈیبلٹی بحال کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ لہٰذاہمیں اُمید ہے کہ قوم ہمارے خلوص کو جواب تعاون کے جذبے سے دے گی۔
میرا داخلی احساس یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے جائز مطالبات مان لینے اور جی ایس ٹی کی مد سے کھانے پینے کی اشیاء نکال لینے اور ڈائریکٹ ٹیکس نافذ کرنے سے ایک توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ایک زمانے میں ویلتھ ٹیکس  کیپٹل گین ٹیکس اور گفٹ ٹیکس نافذ تھے، اُن کی بحالی سے دولت مند لوگوں سے اربوں وصول کئے جا سکیں گے اور امیر اور غریب کا فرق بھی کم ہو گا۔ اِس طرح ہمارے شناس وزیرِ اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید نے یہ اعلان کر کے ہمیں ایک سہانے خواب کی نوید سنائی ہے کہ پی ٹی وی کو بی بی سی کی طرح ایک آزاد اور بلند پایہ ادارہ بنا دیا جائے گا۔ اُن کے اِس اعلان کے اثرات ہمیں خوش اخلاق اور بلند نگاہ پی آئی او جناب عمران گردیزی کی گفتگو میں پوری طرح محسوس ہوئے جو صحافیوں کے ساتھ ایک بامعنی رشتے کے ارتکاز اور صحت مند سماجی رویوں کی نشوونما کرنے کو بنیادی اہمیت دے رہے تھے۔ حقیقی تبدیلی کی لہریں بلند ہوتی جا رہی ہیں اور عظیم روایات کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔ ایسے میں حکومت کے لئے یہ نہایت مناسب ہو گا کہ گھسے پٹے بینک کاروں پر انحصار کرنے کے لئے اعلیٰ دماغ اقتصادی ماہرین کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھائے جو مطلوبہ وسائل کے حصول کے بہتر طریقے تجویز کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو پوری قوم کیلئے رول ماڈل بننا اور مثبت رویوں کو تقویت فراہم کرنا ہو گی کیونکہ قائداعظم ریجنسی زیارت پر حملہ پاکستان پر حملے کے مترادف ہے جس نے دلوں کو بہت اداس کر دیا ہے۔
تازہ ترین