• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا، وہ درست ثابت ہوا۔ فرانس کے سفیر کی ملک سے بے دخلی کے معاملے پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرار داد پر ابھی بحث کا آغاز بھی نہیں ہواتھاکہ یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف قرار داد منظور کر لی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ یورپی ممالک پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات اور جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے لئے پاکستان کی اہلیت پر نظرثانی کریں۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے امتیازی قوانین رائج ہیں۔ قرار داد میں پاکستان سے تعلقات کو ان قوانین خصوصاً توہین مذہب کے قانون (Blasphemy Law) میں تبدیلی، مذہبی آزادی اور فرانس مخالف جذبات سے مشروط کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی اس قرار داد پر عمل درآمد کرنا یورپی ممالک کے لئے لازمی نہیں ہے مگر اس قرار داد سے یہ پتہ چل گیا ہے کہ یورپی ممالک پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور وہ آئندہ ہمارے سماجی اور مذہبی رویوں پر کس طرح کا ردعمل دے سکتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان میں توہین مذہب کے قانون پر بہت پہلے سے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے لیکن یورپی پارلیمنٹ کی مذکورہ قرار داد کا جو وقت ہے، وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔یورپی ممالک نے جی ایس پی ( جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس ) اسٹیٹس ان ملکوں کو دیا ہوا ہے، جو ترقی پذیر ہیں اور جہاں فی کس آمدنی کم ہے۔ ان ملکوں کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں مراعات دی گئی ہیں ۔ان مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹیز عائد نہیں کی جاتیں۔ اس سے اسٹیٹس رکھنے والے ملکوں کو اپنی مصنوعات یورپ برآمد کرنے میں بڑا فائدہ ہوتا ہے لیکن اسٹیٹس ان ملکوں کے بنیادی حقوق اور مزدوروں کے حقوق کے قوانین، ماحولیات کے تحفظ اور گڈ گورننس سے مشروط ہے۔ پاکستان کو 2014 میں یہ اسٹیٹس دیا گیا تھا۔ اس وقت پاکستان یورپی یونین کے ممالک کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے۔ یورپی یونین کی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظرثانی کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے یورپی پارلیمنٹ کی قرار داد پر جس ردعمل کا ظاہر کیا ہے، وہ معقول ہے لیکن پاکستان کے بارے میں مغرب میں جو تاثر قائم ہو رہا ہے، وہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ مغرب پاکستان اور مسلم دنیا میں توہین رسالتﷺ اور اس سے منسلک مذہبی حساسیت کا صحیح ادراک نہیں کر رہا۔ جیسا کہ ہمارے ترجمان دفتر خارجہ نے درست کہا ہے۔ اس کے باوجود ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان پر معمولی سی تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردیں تو ان کے اثرات کا ابھی تک درست اندازہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت ہی قوم کو اپنے خطاب میں بتا دیا تھا کہ اگر کسی مذہبی جماعت کی بات مان کر خارجہ پالیسی بنائی جائے گی تو اس کے پاکستان کو بہت نقصانات ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی ٹھیک تھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین ہمیں کسی بھی طرح برداشت نہیں لیکن جو لوگ توہین کر رہے ہیں، انہیں اس گستاخانہ اور مکروہ عمل سے روکنے کےلئے دوسرے طریقے بھی اختیار کئےجا سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہی واحد طریقہ نہیں ہے۔ دنیا کو بتایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں کی گستاخی کسی بھی طرح آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتی۔

بجائے اس کے کہ ہم مغرب اور امریکہ کو اس بات پر قائل کرتے کہ وہ بھی اپنے ملکوں میں تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں کی توہین اور گستاخی کو روکنے کے لئے قانون سازی کریں۔ اب یورپی پارلیمنٹ کی قرار داد میں پاکستان کے قوانین کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جار ہا ہے اور اب لگتا ہے کہ امریکہ اور مغرب سے آئندہ تعلقات میں یہ مرکزی بات ہو گی، جو پہلے شاید مرکزی بات نہیں تھی یہاں تک معاملہ تیزی سے کیوں پہنچا ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں ؟ یہ سوالات بہت اہم ہو گئے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل پاکستان میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لئے ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا، اس احتجاج کی وجہ سے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور فرانسیسی سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لئے قرار داد قومی اسمبلی میں پیش کر دی۔ اس قرار داد پر اپوزیشن کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اپوزیشن نے بین السطور یہ بات بھی کہہ دی کہ اسمبلی سے باہر کی کوئی جماعت کیا یہ فیصلہ کرے گی کہ اسمبلی کو کیا کرنا ہے۔ ان حالات نے یورپی یونین کی پارلیمنٹ کو یہ جواز مہیا کیا کہ پاکستان کے خلاف قرار داد منظور کرنے کا یہ اس کےلئے مناسب وقت ہے۔ بحیثیت مسلمان حرمت رسولﷺ کا تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن ہم سب کو سوچنا چاہئے کہ ہم اس کے لئے جو طریقہ اختیار کر رہے ہیں، کہیں وہ ان لوگوں کی خواہش کے مطابق تو نہیں، جو پاکستان میں مذکورہ قوانین کو تبدیل کرانا چاہتے ہیں اور وہ یہی چاہتے ہوں کہ ہم ایسا ہی طریقہ اختیار کریں ۔ اس سے پہلے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرارداد پر بحث ہوتی یورپی پارلیمنٹ نے پیش بندی کے طور پر قرارداد منظور کرلی اور پاکستان کو پیغام بھی دیدیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد پر بحث ہوتی ہے یا نہیں لیکن آج کے دور میں پہلے کی طرح حقائق کو منظرعام پر آنے سے روکنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔

تازہ ترین