• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیصل آباد میں تازہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنیوالے شہریوں کے خلاف جس طرح پولیس فورس نے طاقت کا مظاہرہ کیا اس سے ایک بار پھر بعض سابقہ ادوار حکومت کی یادتازہ ہوگئی ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے بعد ایسے واقعات کا رونما ہونا ہرگز کسی اچھے آغاز کی نوید نہیں۔ فیصل آباد کے تاریکی اور گرمی کے مارے ہوئے لوگ وہاں روشنیوں کا مطالبہ لئے نکلے تھے جنھیں پولیس فورس نے ا س طرح ماراپیٹا جس طرح فیصل آباد کی کھڈیوں پر کپاس کو کوٹا جاتا تھا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ خود بھی فرزند فیصل آباد ہیں وہ ماضی میں خود بھی پولیس اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں بے دریغ تشدد کا شکار رہ چکے ہیں۔ مگرانہوں بھی اپنے شہر میں عوام پر پولیس کے اس تشدد کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ۔ آمر مشرف کے اقتدار پر قبضے کے فوری بعد۔ رانا ثناء اللہ کا جرم بھی و ہی تھا جس کا ارتکاب فیصل آباد کے تاریکی اور گرمی کے مارے عوام نے کیا، یعنی کہ پر امن احتجاج اور حق اجتماع کا استعمال ۔آمر مشرف کے اقتدار کا پہلا سال مکمل ہونے پر ہیومن رائٹس واچ کی پاکستان پر مطبوعہ خاص رپورٹ میں رانا ثناء اللہ کا بیان ہے کہ انتیس نومبر کو انکو قلعہ گوجر سنگھ کے سیل سے ڈی ایس پی جماعت علی بخاری اور انسپکٹر الیاس کی معیت میں نکال کر ایک جیپ پر سوار کرایا گیا۔ لاہور ائیر پورٹ کے علاقے کی طرف جاتی ہوئی اسی جیپ کو روک کر انکی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور انہیں ہتھکڑی پہنا کر ایک اور جیپ پر سوار کرایا گیا او ر دس سے پندرہ میل سفر کے بعد وہ جیپ ایک جگہ پر آکر رکی جو لگتا تھا کہ چھاونی کا علاقہ تھا جہاں”مجھے جیپ سے اتارا گیا۔ ایک جگہ لے جاکر میری ہتھکڑی سے ایک رسہ گزار کر مجھے اوپر کی طرف اس طرح لٹکا دیا گیا کہ بمشکل میرے پاؤں زمین پر لگتے تھے۔ پھرایک شخص نے حکم دیا ” پانچ پانچ“۔ ہوا میں کسی شے کی یعنی کوڑے کی لہرانے کی آواز آئی اور میری پیٹھ پر زور سے پانچ بار اس سے ضرب لگائی گئی۔ پھر کسی ڈاکٹر نے آکر میری نبض دیکھی اور پھر اسی طرح پانچ پانچ کے ایسے چار چکر مجھ پر پورے کئے گئے” پھر مجھے اتار کر واپس قلعہ گوجر سنگھ کے سیل میں آکر بند کردیا گیا جہاں ایک بلب میری تنگ کھولی پر چوبیس گھنٹے جلتا رہتا تھا۔ نہ دن کا پتہ پڑتا تھا نہ رات کا۔ یہاں اسی سیل میں میں آٹھ دسمبر تک رہا تھا۔“ ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ کے ساتھ ضمیمہ جات میں وہ ایف آئی آر بھی شامل ہے جس میں رانا ثناء اللہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اس وقت کے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر مسلم لیگ نواز شریف کی سابق اراکین پارلیمان کے اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ” کیا اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک کو سائیکل سمجھ رکھا ہے جب جی چاہے اس پر سواری کرلے۔“ آج ملک میںآ مر مشرف کہاں ہے؟ راناثناء اللہ کو گرفتار کرنیوالے انہیں کوڑے لگانے والے اور کوڑوں کا حکم دینے والے کہاں ہیں؟ لیکن رانا ثناء اللہ اب ایسی کارروائیوں کو با جواز کہتے ہیں۔ پولیس کی یہ فورس سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل اور گورنر تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کے اغوا کندگان کے پیچھے تو نہیں جاتی۔ لیکن ملک کی ایلیٹ یعنی اشرافیہ کے مفادات اور خواہشوں کے دفاع پر مامور ہے۔
وفاقی حکومت میں سندھ سے جو بقول شخصے ڈھائی وزیر اٹھائے گئے ہیں، انکے حلف اٹھانے کے بعد جو سب سے پہلا کام ہوا وہ پولیس والوں کے آدھی رات کو حیدرآباد سندھ کے قاسم آباد میں ایک خاتون لیکچرر کے گھر میں گھس جانے کاتھا۔ بغیر کسی سرچ وارنٹ کے ڈی ایس پی کی قیادت میں گھس کر آنیوالے پولیس والوں نے خاتون لیکچرر اور اس کے دو چھوٹے بچوں کو ہراساں کیا،اس کے شوہر اعجازملاح کو گرفتار کر کر لے گئے۔ کہتے ہیں کہ حال ہی میں دادو سے انتخابات لڑنے کی جسارت کرنیوالے اس متوسط طبقے کے نوجوان انجینئر ملاح کوایک طاقتورشخصیت کے ایما پر اٹھایا گیا ہے۔ مجھے تشویش صرف طاقت کے اس مظاہرے اور اختیارات کے نا جائز استعمال پر ہے جس کے ذریعے آدھی رات کو دو سو پولیس والے مذکورہ لیکچرر کے گھر میں بغیر سرچ وارنٹ کے گھسنے کو بھیجے گئے اور جس طرح دو معصوم بچوں کو ہراساں کیا گیا اورجس طرح خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ یہ سندھ میں اگلی باری کی پہلی قسط تھی۔ اسی دن حیدرآباد سے ایک پندرہ سالہ بچے وجدان میمن کی لاش کے ٹکڑے ایک سوٹ کیس سے برآمد ہوئے۔ مقامی شہری جاوید میمن کا نویں جماعت کا طالب علم بیٹا اسکول جاتے اغوا ہوا۔ اغوا کنندگان نے بیس لاکھ تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ چند روز بعد وجدان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے ملے۔لیکن پولیس والے پندرہ سالہ وجدان کے اغوا کنندگان کے پیچھے نہیں گئے لیکن سیاسی انتقام میں کردار ضرور بنے۔ ایک سابق اور معمر مزدور یونین رہنما کے بیٹے کا انتخاب میں کھڑا ہونا کیسے برداشت ہوسکتا ہے ضمانت کی درخواست پر تاریخیں پڑتی رہیں کہ فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ فوجی عدالتوں کے زمانے میں میرا ایک دوست کہتا تھا کہ فیصلہ محفوظ کرنے کا مطلب ہے کہ پوچھ کر بتائیں گے۔ سندھ میں ایس پی پنجل، غلام شبیر کلیار،ہوم سیکرٹری محمد خان جونیجو، سمیع اللہ مروت ، اور مسعود محمود آج کہاں گئے جوکل حکمرانوں کے ایما پر شہریوں اور ان کے سیاسی مخالفین پر دھرتی تنگ کیا کرتے تھے؟ سوائے مرتضی بھٹو کے قتل کے الزامات والے پولیس افسر کہ جنھیں ترقیوں اور تقرریوں سے نوازا گیا۔ آصف زرداری پر بھی جام صادق علی کے دورحکومت میں تشدد کرنیوالے تھانیدار کو ایس پی بنایا گیا جوبعد میں ڈی آئی جی ہو کر ریٹائرڈ ہوا ۔ اب اگرچہ سندھ میں پھربظاہر حکومت قائم علی شاہ کی ہے لیکن حکم پیروں اور خلیفوں کا چلتا ہے۔
اسی حیدرآباد لطیف آباد سے گیارہویں جماعت کی طالبہ صبا خان کو میرپور خاص پولیس کے اے ایس آئی نے اس کی سہیلی کے اغوا میں شک کے نام پر گھر میں گھس کر اٹھایا تین روز تک صبا کو تھانے میں رکھ کر اس کے غریب والدین سے بھاری رشوت مانگی گئی، سہیلی کے خود گھر واپس آنے کے بعد بھی صبا کو موبائل پر سڑکوں پر پھرایا گیا تھانے پر تذلیل کی گئی۔ رہائی پر صبا اسی تذلیل سے دلبرداشتہ ہوکر گھر کی چھت سے پھندہ بنا کر جھول گئی۔ مگر صبا کی تذلیل کے خلاف کسی نے بھی یوم سوگ نہیں منایا۔ ویسے بھی سندھ میں امن امان کی باگ ڈور اب چھوٹے بھائی کے حوالے ہے۔
تازہ ترین