ملک میں چین سکون ناپید ہے، کوئی بھی خوش اور مطمئن نہیں۔ جہاں کورونا وائرس نے زندگی کی خوشیاں اور اطمینان چھین لیا، ادھر مہنگائی اور حکومتی نااہلی نے مستقبل کے خواب اور امیدیں چھین لیں ۔ اپوزیشن بھی انتشار کا شکار ہے حکومت کی صفوں میں بھی افراتفری اور نئی صف بندی ہے کوئی بھی یکسو نہیں ہے۔ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے اس کا نشانہ اپوزیشن ہے۔ ملکی ترقی تعمیراتی منصوبے اور معاشی اہداف کا حصول اور اس کی جدوجہد مفقود ہے۔
اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے وہ احتساب کا نعرہ لگاتی ہے لیکن حکومت کے اندر جو قابل احتساب ہیں ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ ضمنی انتخابات میں پے در پے ناکامیوں نے حکومت پر لرزہ طاری کردیا، ہوائوں کا رخ دیکھ کر آزمودہ اور الیکٹ ایبل ارکان نے جوڑ توڑ اور مستقبل کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔جہانگیر ترین کی صورت میں انہیں ایک آسرا مل گیا تھا لیکن حکومت نے اندر خانے دونوں کو کچھ تسلیاں تشفیاں دے کر معاملات کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان میں بھی تحریک انصاف کی صورت حال تسلی بخش نہیں، یہ وہ وقت ہے جب حکومت کو گھیرے میں لیا جاسکتا تھا لیکن عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن خود انتشار کا شکار ہوگئی اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے سربراہ کے طور پر بیک ڈور ڈپلومیسی کا ہنر بروئے کار لاکر کوشش کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی ہو جائے لیکن کراچی این اے 249 کے انتخابی دنگل نے سب برباد کردیا اور دونوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی عروج پر پہنچ گئی۔یہاں تحریک انصاف کی بری طرح شکست کا جو مزا لینا تھا وہ دونوں کی لڑائی میں کرکرا ہوگیا۔ ضمنی انتخابات کے آنے والے مسلسل نتائج بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کہاں کھڑی ہے۔
اپوزیشن ایسے وقت میں خود آپس میں دست و گریباں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں شروع سے ہی اعتماد کا فقدان ہے۔ مسلم لیگ (ن) ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس بات سے خائف ہے کہ پیپلز پارٹی ’’بڑی طاقتوں‘‘ کے دبائو میں آ کر پھر کوئی ’’اسائنمنٹ‘‘ مکمل کرنے کی جانب نہ چل پڑے۔ پہلے سینٹ کے چیئرمین، جنوبی پنجاب محاذ اور بلوچستان حکومت کے ٹوٹنے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ ایسا سب کچھ پیپلز پارٹی نے کسی کے کہنے پر کیا ہے۔
اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں آصف زرداری اور شہباز شریف قدرے محتاط لہجہ اختیار کئے ہوتے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مریم اورنگزیب اور محمد زبیر نے تند و تیز لہجہ اختیار کر رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی سے سعید غنی، فرحت اللہ بابر اور نیئر بخاری وغیرہ نے مسلم لیگ کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پیپلز پارٹی یا اس میں ملوث دیگر عناصر کا ذکر کم ہی کرتے ہیں اور دھاندلی کا براہ راست الزام نہیں لگاتے۔ شہباز شریف جب سے طویل قید کاٹ کر باہر آئے ہیں پارٹی کی حد تک فعال اور متحرک نظر آ رہے ہیں، فی الحال ان کا ذہن پڑھنا مشکل ہےوہ ابھی ’’بیانیہ‘‘ ’’غیر بیانیہ‘‘ کے چکر میں نہیں پڑے ۔
وہ زیرک اور سمجھ دار سیاست دان ہیں، وقت سے پہلے پتے شو نہیں کریں گے ،تیل دیکھو،تیل کی دھار دیکھو پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ اس دفعہ ان کے انداز سیاست میں کچھ بدلا ہوا نظر آ رہا ہے ارکان پارلیمینٹ سے پے در پے ملاقاتیں ہو رہی ہیں، شہر کی تنگ گلیوں میں کارکنوں کی رہائش گاہوں کے چکر لگ رہے ہیں، شاید ان کی نظر آئند انتخابات پر ہے جبکہ مریم نواز بھی پیچھے نہیں ہیں،وہ نواز شریف بیانیے سے ہٹی نہیں ہیں تاہم فی الحال لہجہ محتاط اور نرم کرلیا ہے اور توپوں کے رخ تحریک انصاف کی حکومت کی جانب ہیں۔ ایسا شاید اس لئے ہے کہ ادھر سے بھی مداخلت کے آثار اور اشارے کم ہی نظر آ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے موازنے کا چیلنج دے دیا۔
مسلم لیگ (ن) کو قطعی یقین ہے کہ عثمان بزدار تحریک انصاف کی غیر مقبولیت میں اہم کردار ہیں۔ اس وقت کورونا کی صورتحال ہے اگر ایسے برے وقت میں شہباز شریف ہوتے تو جیسے انہوں نے ڈینگی میں کام کیا تھا وہ اس سنگین بحران سے نمٹنے میں کامیاب ہوتے جس طرح انہوں نے توانائی، ٹرانسپورٹ، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ یہاں تو اب تک پنجاب نے کورونا ویکسین کی خریداری تک نہیں کی۔ پنجاب حکومت نے لیبر ڈے پر مزدوروں کی تنخواہ بیس ہزار تک بڑھا دی، اچھا کیا لیکن سرکاری ملازمین جن کی تنخواہیں قومی خزانے سے ادا کرنا ہیں، کتنے عرصے سے نہیں بڑھیں۔
اپوزیشن اس وقت حکومت کے خلاف عملی میدان میں غیر فعال ہے لیکن اندر کی خبر ہے کہ پی ڈی ایم عید کے بعد لانگ مارچ کی تیاری کر رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو امید ہے کہ کراچی کے انتخاب کی تلخی جلد ختم ہو جائے گی اور پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ بن جائے گی لیکن مسلم لیگ (ن)کے ایک دھڑے کی سوچ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ڈانڈے کہیں اور ملے ہوئے ہیں وہ ساری اپوزیشن کو عین موقع پر دھوکا دے سکتی ہے۔
مہنگائی رمضان میں اپنے عروج پر ہے ، مہنگائی کے باعث تحریک انصاف کی حکومت سخت مشکل میں ہے اور اسے عوام میں غیر مقبولیت کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال سنبھلتی نظر نہیں آ رہی ۔ ایسے ماحول میں اسد عمر کا یہ بیان چاہے زیادہ گہرائی نہ رکھتا ہوں لیکن سیاسی ہلچل پیدا کرگیا کہ اگر عمران خان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئی تو وہ بلیک میل ہونے کے بجائے اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ وہ غیر شعوری طور پر جہانگیر ترین گروپ کی اہمیت و حیثیت کو تسلیم کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں عوام سے نئے مینڈیٹ لینے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں؟الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے۔ دراصل اصل ایشو یہ ہے کہ مشین یا غیر مشین دھاندلی کے پیچھے کون ہوتا ہے؟ 2018میں آر ٹی ایس عین موقع پر جواب کیوں دے گیا؟ عید کے بعد سیاست ایک بار پھر زور پکڑے گی۔
کورونا کا زورٹوٹا تو اپوزیشن سڑکوں پر ہوگی، عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائے کہ بجٹ کے موقع پر پارلیمینٹ میں عددی طور پر قسمت آزمائی کی جائے۔ ابھی تک عمران خان اور عثمان بزدار کے حوالے سے یہ ہی بڑی خبر ہے کہ انہوں نے بغیر پروٹوکول شہر کا دورہ کیا۔