لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں شہباز شریف کی بلیک لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی نجفی نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے شہباز شریف کو عدالت میں طلب کیا تھا۔
دورانِ سماعت لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ شہباز شریف خود کہاں ہیں؟ انہوں نے ریٹرن ٹکٹ کیوں نہیں لی؟
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ شہباز شریف لاہور میں موجود ہیں، کورونا وائرس کی وجہ سے ریٹرن ٹکٹ فوری ملنا ممکن نہیں۔
عدالت کے طلب کرنے پر شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے۔
دورانِ سماعت شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ میں کینسر کا مریض رہا ہوں، مجھے سال میں 2 مرتبہ چیک اپ کرانا پڑتا ہے، مجھے جلا وطنی میں یہ مرض لاحق ہوا، امریکی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ لندن میں اس کا علاج کرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ 15 سال سے علاج کرا رہا ہوں، جیل میں عدالت کے حکم پر میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، میڈیکل رپورٹ میں نئے طبی مسائل تشخیص ہوئے۔
لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ علاج میں کتنا وقت لگے گا؟
شہباز شریف نے جواب دیا کہ میں پہلے بھی دو بار باہر جا کر خود واپس آیا۔
عدالت نے کہا کہ آپ کے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ آپ واپس آئے، اب یہ بتائیں کہ اب واپس کب آئیں گے؟
شہباز شریف نے سوال کیا کہ کیا میں دہشت گرد ہوں کہ میرا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا، میں 3 بار وزیرِ اعلیٰ رہا، اب قائدِ حزبِ اختلاف ہوں، مجھے جب ڈاکٹر واپسی کی اجازت دیں گے، میں فوری واپس آ جاؤں گا۔
شہباز شریف نے عدالت میں 3 جولائی کو واپسی کا ٹکٹ پیش کر دیا۔
شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ آمد پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیئے گئے تھے۔
میاں شہباز شریف کی طرف سے عدالتِ عالیہ سے نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی استدعا کی گئی ہے۔