’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ یہ صدیوں پرانا مقولہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں میں صحت و تندرستی ایک بیش بہا نعمت ہے۔
مستحکم اور پائیدار معاشرے کی تعمیر و ترقی میں صحت مند نوجوانوں کی صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم اور صحت کا باہمی تعلق ہے کیونکہ صحت مند نوجوانوں کی تعلیم کے حصول میں بھرپور توجہ اور آگے بڑھنے کا جوش و ولولہ ہوتا ہے، جبکہ جسمانی طور پر کمزور نوجوانوں میں کاہلی و سستی غالب رہتی ہے۔ ان کا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کے اپنے معمولات پر نظر ثانی کریں۔ صحت اور کھیل طلبہ کی کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں مددگار ہوتے ہیں۔
جس طرح نصابی تعلیم، ذہنی صلاحیتیں اور بہتر کردار پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اسی طرح جسمانی تعلیم نوجوانوں میں نظم و نسق، احساس ذمہ داری اور قائدانہ صلاحیتوں کےلئے راہ ہموار کرتی ہے۔ قدرت نے جہاں پاکستان کو بے شمار نعمتوں اور وسائل سے مالا مال کیا ہے، وہیں اس سرزمین کو ذہین دماغ اور بہترین صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں سے بھی نوازا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کی تعلیم و صحت پر سرکاری سطح پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ تعلیم کے حصول میں خراب صحت اگر آڑے آجائے تو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے میں دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
نوجوان اپنی صحت پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔ آپ صحت مند زندگی، تعلیم و تربیت، ہمت و حوصلے، جستجو و لگن اور اعتدال پسندی سے ہی اپنے وطن کو ترقی دے سکتے ہیں۔ ایک اچھی صحت کےلئے ٹائم ٹیبل مرتب کرنا چاہئے۔ متوازن خوراک کے ساتھ پرسکون اور گہری نیند ذہنی اور جسمانی صحت کےلئے انتہائی ضروری ہے۔
ہمارا دماغ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر دماغ بوجھل ہوتا ہے تو پورا جسم متاثر اورکام کی صلاحیتیں مدھم ہوجاتی ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم اور دماغ کو آرام دینے کےلئے رات بنائی، تاکہ انسان رات کو اپنی نیند پوری کرکے صحت مند اور ہشاش بشاش رہے۔ جوانی زندگی کا بہترین دور ہوتاہے۔
یہی وہ عمر ہوتی ہے جب حوصلہ بلند، ہمت مضبوط اور ارادے توانا ہوتے ہیں۔بازوئوں میں قوت اور آنکھوں میں چمک ہوتی ہے۔ راستے کی ہر رکاوٹ کو ٹھوکر مار کر گزرتا ہے۔ اس عمر میں ناقابل یقین کارنامے انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ یہ سب جب ہی ممکن ہےجب نوجوان اپنی صحت و تندرستی پر بھرپور توجہ دیں۔ صحت مند رجحانات کی طرف راغب کرنا والدین اور اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے۔
یہ افراد نوجوانوں میں صحت کے بنیادی اصولوں اور مناسب غذا کے حصول کی آگاہی اجاگر کریں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اسلام میں ہر بات کی حکمت اور اہمیت ہے۔ صفائی ستھرائی کی وجہ سے انسان بے شمار بیماریوں سے بچ سکتا اور ذہن میں تعمیری سوچ اور اچھے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھیں۔
نوجوانوں کو صبح سویرے اٹھنے کی عادت کو اپنانا چاہئے۔ سورج کی پہلی کرن خوشی اور سکون دیتی ہے۔ اس کا اندازہ صبح جلدی اٹھنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ تمام کام بآسانی کرسکتےہیں لیکن افسوس آج کل بہت سے غلط رواجوں میں سے ایک غلط رواج دیر تک سونے کا بھی عام ہے۔ دوپہر کوصبح ہوگی یعنی اُس وقت ناشتا کیا جائے گا تو بقیہ دن میں کیا کام ہوں گے۔
ماہرین صحت کے مطابق سوشل میڈیا اور الیکٹرونکس ڈیوائسز کا زیادہ استعمال انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، جس میں آنکھوں اور پٹھوں کے امراض شامل ہیں۔ کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے زیادہ دیر تک ایک ہی حالت میں بیٹھے رہنا اور نظریں جمائے رکھنے سے گردن اور کمر کے اعصاب میں کھنچائو پیدا ہوجاتا ہے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کم عمری میں ہی آنکھوں کے امراض کا شکار ہورہی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ کم روشنی میں کمپیوٹر اور موبائل فونز کا استعمال ہے جو نئی نسل میں عام سی بات ہے۔ نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا بہت زیادہ رجحان بڑھنے کی وجہ سے ڈپریشن، ذہنی الجھنیں، نیند کی خرابی، موٹاپا، کولیسٹرول کا بڑھ جانا، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دیگر جسمانی امراض میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان کی نئی نسل میں موٹاپا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ موٹاپے کا تعلق امیروں اور کھاتے پیتے طبقے سے ہے، یہ کہنا بالکل غلط خیال ہے کیونکہ وزن کی زیادتی میں مرغن غذائیں نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک اور زندگی گزارنے کا انداز بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں فاسٹ اور جنگ فوڈ اور مشروبات کا بکثرت استعمال بھی وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن رہا ہے۔ نوجوان زیادہ تر جنگ فوڈ، فاسٹ فوڈ، سوفٹ ڈرنکس، مٹھائیوں، چپس، فرائز اور پیزے کے استعمال سے گریز کریں۔ اپنی روزمرہ زندگی میں سبزیوں کا استعمال، گوشت، مچھلی، تازہ پھل کا استعمال کریں۔ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔
اس کے علاوہ پانچ وقت نماز کی عادت ڈالیں۔ کھلی فضا، پارکس اور پرفضا مقامات پر ورزش کر یں۔ اگر جلدی اٹھیں گے تو بآسانی ورزش کو اپنے معمول میں شامل کرسکیں گے۔ آسان الفاظ میں جو لوگ جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہیں ہوتے ، ان میں مایوسی کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے ،جبکہ ورزش یا کسی قسم کی جسمانی سرگرمی رکھنے والے اس ذہنی عارضے سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔
کھیلوں میں حصہ لینے سے نوجوانوں کی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور وہ معاشرتی برائیوں سے بچ جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا انعقاد اشد ضروری ہے۔ اعلیٰ سطح پر کھیلوں کے انعقاد سے ملک کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ کھیلوں کے میدان آباد ہوں گے تو اتحاد و بھائی چارگی، امن کے قیام کے ساتھ معاشرے سے منفی سرگرمیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
صحت کو برقرار رکھنے کا ایک خاص اصول یہ بھی ہے کہ کام کے وقت کام اور آرام کے وقت آرام کیا جائے۔ بہت زیادہ کام کرنے سے بھی صحت گر جاتی ہے اور بہت زیادہ آرام کرنے سے بھی صحت قائم نہیں رہ سکتی۔
نوجوان اپنے عزم و ہمت سے قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی صحت پر توجہ دیں اوراپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز سے صرف کرے۔