اسلام آباد (انصار عباسی) الیکشن کمیشن آف پاکستان تعطیلاتِ عید کے بعد جلد اجلاس طلب کرکے حکومت کی جانب سے نافذ کردہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے آرڈیننس پر بحث کرے گا۔
کمیشن کے ذرائع کے مطابق غیر شائستہ جلد بازی دکھائی گئی تو یہ نظام تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن حکومت کی جانب سے ہفتے کے دن نافذ کردہ آرڈیننس پر حیران ہے۔
کمیشن کا دعویٰ ہے کہ اس معاملے پر ادارے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، اس اقدام کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور آئندہ عام انتخابات 2023ء میں تباہ کن اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔
ای سی پی کے باخبر ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ سے جڑے سنگین چیلنجز پر غور نہ کیا تو آئندہ عام انتخابات پرخطر معاملہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
عید کی تعطیلات کے بعد ای سی پی جلد اجلاس منعقد کرے گا جس میں صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کی صورت میں آزاد و شفاف انتخابات منعقد کرائے جا سکتے ہیں یا نہیں جیسا کہ حکومت نے آرڈیننس جاری کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو سیاسی ارادے اور پارلیمنٹ میں اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی۔
یہ محض ایک تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے، حکومت پہلے ہی تین سال ضایع کر چکی ہے۔ دسمبر 2017ء سے دسمبر 2018ء تک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں، بی وی ایم (بلیک ووٹرز میٹر) اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالے سے تمام تر رپورٹس الیکشن کمیشن نے حکومت کو پیش کی تھیں اور ساتھ ہی یہ رپورٹس پارلیمنٹ میں بھی پیش ہوئیں تھیں لیکن اب تک پارلیمنٹ نے کوئی اقدام نہیں کیا۔
اور اب جبکہ عام انتخابات میں دو سال سے تھوڑا زیادہ عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے، اس میں وزیراعظم اور حکومت کی خواہش پر عمل کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور معلوم ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع نے دی نیوز کی ہفتہ کو شائع ہونے والی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماہرین اور پلڈاٹ جیسی تنظیموں نے پہلے ہی ان سنگین خطرات کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر عملدرآمد کی صورت میں کس طرح کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹنگ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں ہوتی لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اسے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے متعارف کرانا چاہتی ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ ووٹنگ ساز و سامان کے لحاظ سے اور سافٹ ویئر کے لحاظ سے بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ملک اسے استعمال نہیں کرتا۔ ذریعے نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آخر کیوں ایسی ٹیکنالوجی الیکشن میں متعارف کرانا چاہتی ہے جو نا آزمودہ ہے اور ناپختہ خیال ہے۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کے مسائل ہوں گے، آئرلینڈ، جرمنی، برطانیہ، فن لینڈ، ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ختم کرکے کاغذ والے ووٹوں کا استعمال کر رہے ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ متعارف کرانے سے شفافیت بڑھنے کی بجائے کم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ خطرناک زیادہ اور شفاف کم ہے کیونکہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ سافٹ ویئر اور مشین میں نصب چِپ میں کیا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماہرین کی بھی یہی رائے ہے لیکن حکومت ان کی بات نہیں سُن رہی۔
الیکٹرانک ووٹنگ کے تجرباتی منصوبے کے حوالے سے ذرائع کہتے ہیں کہ اس کا پیمانہ چھوٹا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 150؍ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور 100؍ بی وی ایم خریدی تھیں اور این اے 4 کے الیکشن میں 26 اکتوبر 2017 کو ہونے والے الیکشن میں الیکٹرانک مشینیں جبکہ این اے 120 لاہور کے الیکشن میں 17 ستمبر 2017 کو بی وی ایم استعمال کی گئی تھیں۔ دونوں کے نتائج اچھے نہیں تھے۔
چونکہ یہ چھوٹے پیمانے پر کیا جانے والا تجربہ تھا، الیکشن کمیشن نے فوری طور پر پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹس پیش کیں لیکن اُس وقت سے اب تک پارلیمنٹ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
کہا جاتا ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر نے بھی اپریل 2020ء میں یہ رپورٹس بھجوائیں اور 500؍ کاپیاں چھپوائیں لیکن اس پر بھی کوئی سنجیدہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے دھاندلی روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ملکی و عالمی سطح پر متنازع بن چکی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 2019 میں بھارتی الیکشن اپنی تاریخ کے انتہائی متنازع الیکشن تھے کیونکہ ان میں الیکٹرانک مشینیں استعمال کی گئی تھیں۔ ان مشینوں سے رفتار تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ان سے بیلٹ باکس بھرنے، پولنگ اسٹیشن پر قبضے، خواتین کے کم ٹرن آئوٹ، جعلی ووٹ اور دھاندلی کے دیگر طریقے روکے نہیں جا سکتے۔ بجٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوں گے اور اگر اس رقم کو ساڑھے تین لاکھ سے ضرب دی جائے تو یہ 52؍ ارب روپے بنتے ہیں جو صرف مشینوں پر خرچ ہوں گے۔ اس کی وضاحت یہ دی جا رہی ہے کہ آئندہ الیکشن میں ایک لاکھ پولنگ اسٹیشن ہوں گے جن میں تقریباً تین لاکھ پولنگ بوتھ ہوں گے، اس کے علاوہ ہنگامی ضرورت کیلئے پچاس ہزار اضافی مشینوں کی بھی ضرورت پیش آئے گی۔
اس کے علاوہ، مشینوں کو رکھنے کیلئے اسٹوریج، ان کی دیکھ بھال (مینٹی ننس)، تنصیب اور سیٹنگ، لاجسٹک، تربیت اور نقل و حرکت پر بھی اخراجات ہوں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ محتاط اندازہ لگایا جائے تو اس نئے تجربے پر 120؍ ارب روپے خرچ ہوں گے۔ ان ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ غریب ملک کیلئے اتنا بڑا خرچہ کرنے کے بعد ہارنے والے لوگ الیکٹرانک دھاندلی کا رونا روئیں گے۔