• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عیدُ الفطر‘‘ مسلمانوں کی اخوت و اجتماعیت اتحاد و یگانگت کا عظیم مظہر

ڈاکٹرآسی خرم جہانگیری

تاریخ کی ور ق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ خطۂ ارض پر خوشی اور شادمانی، فرحت و مسرت، جشن اور عید کا نقطہ آغاز اس دن سے ہوا جس روز سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی۔دوسری عید اور مسرت کا جشن اس لمحہ سعید میں منایا گیا جب سیدنا نوح علیہ السلام اور آپ کی امت کو طوفان نوح علیہ السلام سے نجات ملی۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر جب نار نمرود گلزار کردی گئی اس دن کی مناسبت سے آپ کی امت عید منایا کرتی تھی۔ 

سیدنا یونس علیہ السلام کی امت اس دن کی یاد میں عید منایا کرتی تھی جس دن آپ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی تھی۔ بنی اسرائیل (یہودی) اس دن کی یاد میں عید منایا کرتے تھے جس دن سیدنا حضرت موسی علیہ السلام کی برکت سے انہیں فرعون اور اس کے جبر و ستم سے نجات ملی جب کہ عیسائی اس دن عید مناتے ہیں کہ جس دن حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، مگر بحیثیت مسلمان ہم اہل اسلام کا مسرت و شادمانی، جشن و خوشی کا فکر و فلسفہ منفرد، ایمانی اور نرالی شامل کا حامل ہے۔

عیدالفطر امّتِ مسلمہ کے لیے جشن کا ایک مخصوص دن ہے۔ یہ دن اس ماہِ مبارک، رمضان کے اختتام پر طلوع ہوا ہے، جو روحانی بہار کا مہینہ تھا، اس مہینے کے آخری عشرے میں نور وہدایت کی کتابِ مبین (قرآن مجید) عطا کی گئی۔ عالمِ انسانیت کے لیے آخری مینارۂ نور اورسلامتی والی یہ کتاب ماہِ رمضان کی جس رات کو نازل ہوئی، وہ رات بھی اپنی شان وشوکت کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دی گئی۔ 

بے شمارخصوصیتوں اور برکات کے باعث پرودگارِ عالم نے رمضان المبارک کو تمام مہینوں سے افضل قرار دیا اور ہر مسلمان پر پورے مہینے کے روزے فرض قرار دیے گئے۔ اس لحاظ سے وہ لوگ بڑے خوش نصیب قرار پاتے ہیں، جو رمضان المبارک کو اس کے پورے آداب کے ساتھ عبادت و ریاضت کے ساتھ گزار تے ہیں۔عید مسلمانوں کے لیے اس اعتبار سے جشنِ مسرّت کا دن ہے کہ اس سے ایک ہی دن قبل وہ ماہِ مبارک تھا، جس میں قرآنِ حکیم نازل ہوا۔ اس اعتبار سے یہ یومِ تشکّر ہے کہ اُس پروردگارِ عالم نے ہم مسلمانوں کو اس ماہِ مبارک میں روزے رکھنے اور عبادت و اطاعت کی توفیق دی۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب مکے سے ہجرت فرما کر مدینۂ منوّرہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ( جن کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کر چکی تھی) وہ جشن و مسرّت کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ رسول اکرمﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے کہا ہم جاہلیت میں (اسلام سے قبل)یہ دو تہوار منایا کرتے تھے( بس وہی رواج اب تک چلا آ رہاہے) رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر فرمائے ہیں، یوم عید الاضحیٰ اور یوم عید الفطر۔

دنیا کی ہر قوم اورہر ملّت کے کچھ خاص تہوار اور خوشی منانے کے دن ہوتے ہیں، جن میں وہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ لباس پہنتے، اچھے کھانے پکاتے اور دوسرے طریقوں سے خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ عید کے معنیٰ خوشی کے ہیں، اس عید کو ’’عیدالفطر‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نماز عید سے قبل غربا و مساکین میں فطرہ تقسیم کیا جاتا ہے۔

رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ جب عیدالفطر کی رات آتی ہے تو ملائکہ خوشیاں مناتے ہیں۔ عیدالفطر و عیدالاضحی اس امّت کے توحیدی مزاج اور نظریۂ حیات کے عین مطابق ہیں۔درحقیقت عیدالفطر کی سب سے زیادہ خوشی روزے دار کو ہوتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اس قدر حوصلے اور کرم سے نوازا کہ اس نے اس ماہِ مبارک کے روزے رکھے اور راتوں میں عبادت کی۔’’عیدالفطر‘‘ مسلمانوں کے لیے اللہ بزرگ و برتر کا انعام ہے کہ آج مسلمانان عالم چودہ سو برس گزرنے کے باوجود اپنے حقیقی معبود کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔نماز عید کا یہ روح پروراجتماع اہل ایمان کے اتحاد ویک جہتی کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب اورملت میں نہیں ملتی۔

غرض عید کے جشن مسرت کا جیسا پاکیزہ اور عمدہ تصور اسلام کے پیروکاروں کو بخشا گیا ہے ایسا کسی مذہب میں نہیں۔تیس دن رحمت،مغفرت کی برکت اورجہنم سے نجات والے عمل سے خلاصی کے بعد بندہ ظاہری،باطنی طور پر صاف ستھرا ہو کر نفس مطمئنہ کے قریب تر ہوجاتا ہے۔ حدیث نبویﷺ ہے ’’جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ زمین پر اتر کر گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں جسے جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے،اے محمدﷺ کی امت اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے‘‘۔

تازہ ترین