کراچی (ٹی وی رپورٹ)شاہ خاور ایڈووکیٹ نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کے حوالے سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ تھا اس پر کافی بحث ہو سکتی تھی،حدیبہ کیس کھولنے کاقانونی راستہ سپریم کورٹ کے پاس ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں کیس کی تفتیش میرا خیال میں ممنوع ہو گی اور ایسا کریں گے تو شاید اس میں توہین عدالت کی کاروائی جو ہے وہ عمل میں شاید لائی جاسکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا۔اس سوال پر کہ حکومت نے کہا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز جو ہے ان کی از سر نو تفتیش شروع ہو گی شاہ خاورایڈووکیٹ نے کہا کہ جی اس کی تو چیک ہیٹ ہسٹری ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے 92 سے شروع ہوتا ہے پھر یہ 2000 میں اس کا اختتام ہوا اس کے بعد اس کی اہم بات یہ ہے کہ اس کی جو لاہور ہائیکورٹ کے ایک پرویژن بینچ میں یہ میٹر گیا تھا کہ اس کیس کو ری اوپن کیا جائے اور اس میں جو دو جج صاحبان تھے ان کا اختلاف تھا ایک جج صاحب کہہ رہے تھے کہ شاید اس کو جاری رکھا جاسکتا ہے اور دوسرے جج صاحب نے جو ہے کہا کہ بلکل بند اور Closeہو جانا چاہیے اس کی وجہ یہ تھی کہ جو پروسیکیوٹر جنرل نیب نے بھی یہ سفارش کر دیا تھا کہ اس کیس کو مزید آگے چلانے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کو بند کر دیا جائے تو جب وہ لاہور ہائیکورٹ کے دو ججز کا اسپلیٹ ہو گیا decision تو پھر وہ قانون کے مطابق ریفری جج صاحب کے پاس گیا اور ریفری جج صاحب نے ان جج صاحب سے اتفاق کیا کہ مزید تفتیش جاری رکھنا مناسب نہیں ہے۔
شاہ خاورنے کہا کہ سپریم کورٹ کا بینچ ثاقب نثار صاحب کے دور میں بنا تھا لیکن ایک دلچسپ عمل یہ ہے اس میں جوایک ممبر تھے جناب جسٹس فائز عیسیٰ صاحب تھے اور جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے ہی وہ جیجمنٹ جو ہے وہ آفر کی ہے جس کے بارے میں انہوں نے کہہ دیا کہ یہ ایک Close اور فاسٹ ٹرانزیکشن ہے اور اس کو مزید جو ہے criminally انویسٹی گیٹ نہیں کیا جاسکتا اور ابھی یہ جو گورنمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی از سر نو تفتیش شروع کی جائے اس پر تو ویسے کوئی شک نہیں ہے کہ جو کریمینل جسٹس سسٹم ہے اس میں کوئی بھی کریمنل تفتیش رُک نہیں سکتی اور اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ تھا اس پر کافی بحث ہو سکتی تھی کہ کیا وہ کسی بھی کریمنل تفتیش کو روک سکتے ہیں یا نہیں روک سکتے ہیں
لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی ججمنٹ ہے اورآرٹیکل 189 آئین کے تحت وہ تمام ججمنٹ سپریم کورٹ کی جس میں کہ کسی بھی قانونی نکتہ کے اوپر جو ہے کوئی رائے قائم کی گئی ہو وہ بائنڈنگ ہوتی ہے تمام ایگزیکٹو اور جوڈیشل اتھاریٹز کے اوپر اب میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی موجودگی میں وہ کون سی ایسی Prosecutingایجنسی ہے جو کہ ان کی اس فیصلے کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے از سر نو اسی کیس کی تفتیش عمل میں لائے۔
اس سوال پر کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت اس کی تفتیش نہیں کرسکتی اب ۔ شاہ خاورنے کہا کہ دیکھیں میں آپ کو بتاؤں چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ایک ججمنٹ ہے جس میں لاہور ہائیکورٹ کی ججمنٹ کو انڈوز کیا ہے اور ایک آئینی درخواست جو اس کے بارے میں داخل کی گئی تھی اس کو انہوں نے خارج کیا ہے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اُسی کیس کی تفتیش میرا خیال میں ممنوع ہو گی اور ایسا کریں گے تو شاید اس میں توہین عدالت کی کاروائی جو ہے وہ عمل میں شاید لائی جاسکے، کوئی بھی ادارہ اگر اس کی دوبارہ تفتیش کرے گا ازسر نو اس کیس کو کھولے گا ان نکات پر جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان پابندی لگا چکی ہے اس کے تحت تواس کے بالکل نتائج توہین عدالت کے ہوسکتے ہیں
لیکن ایک چیز واضح کردوں کہ کوئی بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ جو کہ دو یا تین ججز پر مشتمل ہو اس کو ری وزٹ ضرور کیا جاسکتا ہے اگر وہ قانونی طور پر ٹھیک نہ ہو لیکن وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کے اوپر سپریم کورٹ آف پاکستان سوموٹو ریو لے لے اور اس کے اوپر ایک لارجر بنچ تشکیل دے دے تو لارجر بنچ اپنے کسی بھی پہلے کسی بنچ کے فیصلے کو ری وزٹ ضرور کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔سوموٹو ریوکےبہت سارے ایسے کیسز موجود ہیں
میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس میں کوئی قانونی راستہ موجود ہے وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس ہے اگر وہ اس میں سوموٹو ریو لے لے وزٹ کرنا چاہے یا اس کے بارے میں درخواست بھی دی جاسکتی ہے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کوئی بھی فریق دے سکتا ہے لیکن سپریم کورٹ پہلے اس کو یہ جانچے گی کہ درخواست میں کتنا وزن ہے اور پھر وہ مناسب سمجھیں گے تو اس کے اوپر سوموٹو ریو اس کی jurisdiction سپریم کورٹ اختیار کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے ان کو ایک اس سے بڑا بنچ تشکیل دینا پڑے گا۔