• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیدالفطر اسلامی معاشرے کا ایک عظیم الشان تہوار ہے، جو رمضان المبارک کی روحانی اور جسمانی ریاضت کے بعد مسلمانوں کے لیے خاص تحفہ ہوتا ہے۔ اس پُرمسّرت موقعے کا لوگ شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ تاہم پہلے اس کے لیے کیا جانے والا اہتمام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ بدلتی ہوئی روایات اور منہگائی نے عید کی خوشیاں بہت حد تک کم کردی ہیں۔ اس کے باوجود ساری دنیا کے مسلمان آج بھی اس تہوار کے لیے حتی المقدور تیاریاں کرتے ہیں۔

ہوش ربا منہگائی،کورونا اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں جاری اقتصادی بحران نے پاکستان کے عوام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہےاور غریب کے لیے حالات کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔ا یسی صورتِ حال میں غریبوںکے لیے عید کی خوشیاں منانا تو دور کی بات ہے، وہ تو دو وقت کی روٹی کےلیےبھی پریشان رہتا ہے۔اس کے باوجود ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کم از کم اپنے بچّوںکوعیدکی خوشیاں دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔غریب افرادان حالات میںعید منانے کے لیے کی جانے والی تیاریوں کے ضمن میں کن مشکلات کا شکار ہیں؟ ذیل میں ہم نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اہتمام والی عید

ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے عیدالفطر مسرّت اور شادمانی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اس روزہرمسلمان اپنی استطاعت کےمطابق خوشیاں منانے کی خواہش رکھتا ہے، لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے نظام نے انسان کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ وہ دین جو ہر طرح کی طبقاتی تقسیم کے خلاف ہے، آج اس کے ماننے والے بھی مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں امیروں اورغریبوں کے درمیان فرق روزبہ روز بڑھتا جا رہاہے۔ پاکستانی میں طبقاتی تفریق پہلے اس قدر زیادہ اور اتنی نچلی سطح تک نہیں تھی، جتنی آج ہے۔ امیر اور غریب کی عید میں پہلے کتنا اور کیسا فرق تھا اور آج کیا صورتِ حال ہے؟ 

اس بارے میں صدر میں گلشنِ اقبال سے عید کی خریداری کے لیے اپنے پوتوں کے ساتھ آئے ہوئے بزرگ رحمت اللہ بیگ نے بہت عمدہ باتیں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے وقت لوگوں میں مسلمانیت، اخوّت، رواداری، ایثار و قربانی کے جذبات عروج پر تھے۔ ویسے بھی اس وقت پاک و ہند کے معاشرے میں طبقاتی کش مکش کا کوئی زیادہ زور نہیں تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے ایوب خان کے دورکے ابتدائی چند برسوں تک امیروں اور غریبوں میں بہت زیادہ تفریق نہیں تھی۔ 65ء کی جنگ کے بعد ہماری معیشت پر منفی اثرات پڑے اورمنہگائی بڑھی۔ 

اگرچہ ایوب خان کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور معاشرے پر بہت سے منفی اثرات مرتّب ہوئے، لیکن یہ اثرات اُن کے بعد واضح ہوئے۔ اس وقت تک لوگ بہت اہتمام کے ساتھ عید مناتے تھے۔ مرد عام طور پر پاکستان کے بنے ہوئے سوتی کپڑے کے کُرتے، پاجامے یا کُرتا، شلوار پہنتے تھے اور خواتین بھی سوتی ملبوسات استعمال کرتی تھیں۔ زیادہ تر گھروں میں فرنیچر کے نام پر چند کرسیاں، میز، ایک دو تخت اور مسہریاں ہوتی تھیں۔ اونچے متوسّط طبقے کے گھروں میں سادہ سے صوفے ہوتے تھے، جن میں ہتّھے عام طور پر نہیں لگے ہوتے تھے۔ زیادہ تر صوفوں اور کرسیوں کا ڈیزائن ایک ہی طرح کا ہوتا تھا ۔

دفاتر جانے والے ٹَیٹرون، زِین اور گیباڈین کی پتلونین عام طور پر پہنتے تھے۔ عید، بقر عید کے موقعےپر مردوں کے ملبوسات کے فیشن یا کوالٹی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ بس یہ ہوتاکہ اُن مواقعےپر لوگ عام دنوں کی طرح کے ملبوسات کا نیا جوڑا پہنتے تھے۔ البتہ خواتین کے ملبوسات کے فیشن زیادہ حد تک بدلتے تھے، لیکن آج کی طرح نہیں ہوتا تھا کہ رخ ایک دم مشرق سے مغرب کی طرف ہو جائے۔ گوٹے کناری لگانے کے انداز بدل جاتے تھے۔کبھی چُنری کا دوپٹّا رواج پا جاتا، توکبھی رنگ دار دوپٹّوں کا فیشن آجاتاتھا۔

رحمت اللہ بیگ کے بہ قول مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی معیشت پر بہت بُرے اثرات مرتّب ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد بڑی تعداد میں پاکستانیوں کے بیرونِ ملک چلے جانے کی وجہ سے معیشت کچھ سنبھل گئی تھی، لیکن یہیں سے عام لوگوں میں طبقاتی تفریق کی رفتار تیز ہوئی اور یہ نمایاں ہو گئی۔ بیرونِ ملک مقیم افراد پاکستان آتے، تو اپنے ساتھ طرح طرح کی اشیاء لاتے اور اُن کی نمایش کی جاتی ۔ 

اسی طرح بیرونِِ ملک سے آئی ہوئی دولت پر یہاں موجود لوگ خوب عیش کرتے اور دولت کی نمایش بھی کی جاتی۔ غریب اور متوسّط طبقے میں اس صورتِ حال کی وجہ سے بہت تیزی سے تبدیلی آئی اور ان دونوں طبقوں میں مزید طبقاتی تقسیم ہوئی۔ پھر ضیاء الحق کا زمانہ آیا، جس کے ابتدائی چند برس چھوڑ کر بعد میں منہگائی کو پَر لگ گئے۔ اس طرح غریب لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوتی گئی اور غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ 

غریب پہلے بھی تھے، لیکن پہلے غربت کوئی گالی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لوگ شرافت، نجابت اور خاندان دیکھا کرتے تھے اور عید، بقر عید میں میل جول میں طبقاتی تفریق حائل نہیں ہوتی تھی۔رحمت اللہ بیگ کہتے ہیں کہ انہیںاچھی طرح یاد ہے کہ اُن کے دفتر کے بعض اعلیٰ افسران عید الفطر کے موقعے پر بہ طور خاص اُن کے گھر آتے اور فرمایش کر کے شِیر خُرمہ اور کباب کھاتے تھے، حالاں کہ اُن کے اور اِن کے دفتری رتبے میں بہت زیادہ فرق تھا۔

طبقاتی تفریق اور بازار

کراچی میں طبقاتی تفریق کا واضح طور پر اندازہ لگانا ہو، تو لانڈھی، ملیر، لیاقت آباد، گلشنِ اقبال، طارق روڈ، حیدری، صدر، کلفٹن اور ڈیفنس کے بازاروں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ اِن بازاروں میں جانے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں غریب، متوسّط اور امیر طبقے کے لوگوں کی عید میں کتنا زیادہ فرق ہوتاہے۔ملیرکےسب سے بڑے بازار لیاقت مارکیٹ میں اس برس پانچ چھ برس تک کے لڑکوں کےکُرتے شلوار یا پتلون، قمیص،ٹی شرٹ کے سُوٹ نوسو روپے سے لے کر بارہ،پندرہ سو روپے تک میں مل رہے تھے۔ اسی طرح اس عمر کی لڑکیوں کا مکمل سُوٹ ہزار سے چودہ سو روپے تک میں مل رہا تھا۔ 

اگر صرف فراک خریدنا ہوتو پانچ تا آٹھ سو روپے تک میں مل جائے گا۔ لانڈھی کی بابر مارکیٹ اور لیاقت آبادکے بازارمیں بھی تقریباً یہ ہی صورتِ حال ہے۔ حیدری مارکیٹ میں ان دونوں بازاروں کے مقابلے میں دو تا تین سو روپے کا فرق دیکھا گیا۔گلشنِ اقبال کی دکانوں میںیہ منظر بدل جاتا ہے۔ یونی ورسٹی روڈ کے آس پاس واقع دکانوں اور گلستانِ جوہر کے یونی ورسٹی روڈ اور راشد منہاس روڈ سے ملحق حصّوں میں واقع شاپنگ سینٹرزکے نرخ غریبوں اور نچلے متوسّط طبقے کے لوگوں کے لیے روح فرسا ہیں۔ 

راشد منہاس روڈ سے ملحق گلستانِ جوہر کے حصّے میں واقع ایک شاپنگ سینٹر میں ایک کثیر القومی ادارے کا مشہورِ زمانہ اسٹور واقع ہے، جس میں ملبوسات اور جوتے سمیت مختلف اشیاء ملتی ہیں۔ اس اسٹور میں چار پانچ سال کے بچّوںکے سُوٹ سترہ سو سے لے کرتین ہزار رو پے تک کےہیں۔ طارق روڈ اور بہادر آباد کی دکانوں میں اس عمر کے بچّوں کے سُوٹ پندرہ سوسے دو ہزار روپے تک میں دست یاب ہیں۔ کلفٹن کی دکانوں میں نہ صرف کپڑوں کا معیار مختلف نظر آیا، بلکہ فیشن اور قیمتیں بھی مختلف نوعیت کی تھیں۔ غریب اور متوسّط طبقے کے نزدیک جو فیشن معیوب یا ناقابلِ قبول ہوتا ہے، امیر اسے بہت فخر سے اپنا لیتے ہیں۔ 

فکر میں طبقاتی تفریق کی یہ واضح مثال ہے۔ یہاں مذکورہ عمر کے بچّوں کےسُوٹ دوہزارسے لے کر ڈھائی تین ہزار روپے تک کے تھے ۔ گلشنِ اقبال کی دکانوں میں چار پانچ برس کی بچّیوں کے سُوٹ پندر ہ سو سےدو ہزارروپے تک میں دست یاب تھے۔ صرف فراک سات سو سے ہزار روپے تک کے تھے۔طارق روڈ پر اس عمر کی بچّیوں کے اسکرٹ اور بلاؤز اور فلیپر اور شرٹ کے سوٹ دوہزار سے پینتیس سو روپے میں اور فراک آٹھ ،نو سوسے پندرہ سو روپے میں دست یاب تھے۔کلفٹن کی دکانوں میں اس عمر کی بچّیوں کے سُوٹ سترہ سو سے ڈھائی ہزار روپے تک کے اور فراک ہزار، بارہ سو سے بائیس سو روپے تک کے تھے۔

صدر میں زینب مارکیٹ، بوہری بازار، کریم سینٹر، سلیم سینٹر ا ور زیب النّساء اسٹریٹ پر سستے اور منہگے ہر طرح کے ملبوسات دست یاب تھے۔یہاں چار پانچ برس کے لڑکوں کے سُوٹ نو سو سے لے کر پندرہ سو روپے تک کے اور اس عمر کی لڑکیوں کے سُوٹ گیارہ سے سترہ سو روپے تک میں دست یاب تھے۔ سب سے زیادہ منہگے ملبوسات زیب النّساء اسٹریٹ پر واقع دکانوں میں تھے۔زینب مارکیٹ میں نرخ اوسط درجے کےتھے ۔ کریم سینٹر اور سلیم سینٹر سے ملحق گلیوں میں سب سے سستے ملبوسات فروخت ہوتے دیکھے گئے۔

لیاقت آباد مارکیٹ، لیاقت مارکیٹ، ملیر، بابر مارکیٹ لانڈھی، حیدری بازار اور صدر میں خواتین کے سِلے سِلائے سوٹ دو ہزارتا پینتیس سو روپے میں دست یاب تھے۔ بوہرہ بازار کی بعض دکانوںمیں کاٹن کے سوٹ اُنّیس سو روپے میں بھی دست یاب تھے۔ اسی طرح بغیر سِلے ہوئے سُوٹ کےپارچے سترہ سے بائیس سو روپے میں دست یاب تھے۔ طارق روڈ پر بغیر سِلے ہوئے سوٹ کے پارچے دو تاساڑھے چار ہزارروپے تک اور سِلے ہوئے سوٹ کم ازکم تین تاپانچ ہزارروپے میں فروخت ہورہے تھے۔کلفٹن میں سِلے ہوئے سوٹ چار تا پانچ ہزار روپےتک اور بغیر سِلے ہوئے سوٹ کے پارچے کم از کم تین تاچار ہزار روپے میں دست یاب تھے۔

مردوں کی ڈریس پینٹ، لیاقت مارکیٹ، ملیر، لیاقت آباد مارکیٹ، بابر مارکیٹ، لانڈھی، حیدری بازار اور صدر میںنو سوروپے سے لےکرچودہ سو روپے میں اور شرٹ اور ٹی شرٹ چارسوسےنو سو روپے تک میں دست یاب تھیں۔ طارق روڈ پر یہ اشیاء بالترتیب تیرہ سو سے بائیس سو روپےاور چھ سو سے لے کربارہ سو روپے تک میں دست یاب تھیں۔

فکر میں تفاوت

عید کی خریداری کے ضمن میں نوجوان اور عمر رسیدہ افراد کے طبقوں کی فکر میں تفاوت دیکھنے میں آیا۔ یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ نوجوان طبقہ خوب صورتی اور پسند کو ترجیح دے رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں عمر رسیدہ افراد کوئی چیز خریدنے سے قبل اسے اچھی طرح دیکھ رہے تھے اور اس کے معیار کا اندازہ لگا رہے تھے۔ 

اگلے مرحلے میں وہ وہ دکان دار سے نرخ کم کرنے کے بارے میں کہتے ہوئے دیکھے گئے۔ دوسری طرف نوجوان طبقہ کوئی شے پسند آنے پر سرسری انداز میں اس کا جائزہ لیتے ہوئے اور پھر تھوڑی سی گفتگوکے بعد وہ شے خریدتے ہوئے دیکھا گیا۔

مرغا چھاپ لٹّھا پونے دو روپے گز

منہگائی کے باعث پاکستان میں غریبوں کے لیے عید کی خوشیاں منانا سال بہ سال مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس بارے میں ملیرکی رہایشی عزیز النّساء نامی ایک عمر رسیدہ خاتون کا کہنا تھا کہ ایوب خان کے زمانے میں آٹا چارپانچ آنےسیر،مٹھائی تین، ساڑھے تین روپے سیر، سویّاں دس بارہ آنے سیر، دودھ چھ آنے سیر، شکر چَودہ آنے سیر اور گھی دو ڈھائی روپے سیر تھا۔ 

عمدہ قسم کا مرغا چھاپ لٹّھاپونےدوروپے گز،پاپلین، ململ اور وائل ڈیڑھ روپے گز ملتا تھا۔ خواتین اپنے لیے لیڈی منٹن تین چار روپے گز کے حساب سے خریدتی تھیں۔ اس زمانے میں متوسّط طبقے کے لوگوں کی تن خواہ ساٹھ، ستّر روپے ماہانہ تھی اور بیس پچیس روپے میں اتنا سامان آ جاتا تھا کہ اُسے رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ متوسّط طبقے کے لوگ عام طور پر اور عید کے موقعے پر بھی لٹّھے کی شلوار یا پاجامہ اور پاپلین، ململ یا وائل کا کُرتا پہنتے تھے۔

خواتین عام دنوں میں لٹّھے، چِھینٹ یا لِیلن کے ملبوسات زیب تن کرتی تھیں اور عید، بقر عید یا خاص مواقعے کے لیے لیڈی منٹن کا انتخاب کرتی تھیں۔ بچّوں کےسِلے ہوئے ملبوسات بہت کم ملتے تھے اور مرد و خواتین کے لباس گھروں میں خواتین خود ہی سِیا کرتی تھیں ۔اُن کے بہ قول اُس زمانے میں عید کا رنگ اور ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتا تھا اور امیروں اور غریبوں میں وہ تفریق نہیں تھی، جو آج نظر آتی ہے۔

عید کی خوشیوں پر دولت کا قبضہ

موجودہ زمانے میں غریب کس طرح عید مناتا ہے؟ اس بارے میں بلدیہ عظمی کراچی کے دفتر میں جونیئر کلرک کی حیثیت سے کام کرنے والے ریحان انصاری کاکہنا تھاکہ امیرجلد ازجلدعید آنے کی دعاکرتاہے، لیکن غریب آدمی یہ چاہتا ہےکہ عید لمبے وقفے کے بعد آئے یا اُس وقت آئے، جب اُس کے ہاتھ میں چار پَیسے ہوں۔ اُن کے بہ قول جوں جوں عید قریب آتی ہے، غریب آدمی کی پریشانی اُسی قدر بڑھتی جاتی ہے۔ 

یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے عید کی خوشیوں پر دولت کا قبضہ ہو گیا ہے اور اس تہوار کی خوشیاں دولت مندوں کے لیے مخصوص ہو گئی ہیں۔ ریحان انصاری کے بہ قول، موجودہ زمانے میں عید کو نمود و نمایش کاذریعہ بنالیاگیاہے۔ اُس روز ہمارے معاشرے کی طبقاتی تفریق نمایاں ہو جاتی ہے اور غریب اور امیر کے درمیان واضح فرق دیکھ کریوں لگتا ہے، جیسے امیر افرادغریبوں کا مذاق اُڑا رہے ہوں۔

بمبئی بازار، اولڈ ٹائون میں بچّوں کے ملبوسات کی خریداری کے لیے آنے والے محمد فرحان رنچھوڑ لائن میں رہتے ہیں اور ان کے چار بچّے ہیں، جو مختلف جماعتوں میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ ایک نجی ادارے میں ملازم ہیں اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بقول ان کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار روپے ہے، جس میں سے 6ہزار روپے ماہانہ کرائے کی مد میں نکل جاتے ہیں۔ باقی بچ رہنے والے چودہ ہزار روپے میںسے تین ہزار بچّوں کی تعلیم پر خرچ ہوجاتے ہیں اور گیارہ ہزار روپے میں انہیں گھر کے تمام اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ 

ان کے مطابق انہیں اپنے بچپن اور جوانی کے ایّام میں آنے والی عیدالفطر کی خوشیاں اور رونقیں آج تک یاد ہیں۔ اُس دور میں لوگ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے لیے خاص طور پر تیاریاں کرتے تھے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ رمضان المبارک میں عیدالفطر کے لیے ملبوسات اور چپل، جوتے خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتےتھے اور بہت شوق سے عیدالفطر کے لیے ان اشیاء کا انتخاب کرتے تھے۔ اُس زمانے میں دکھاوے کا زیادہ رجحان نہیں تھا۔ لوگ سادگی پسند تھے اور فیشن کے چند مخصوص انداز لوٹ پھیر کے آتے رہتےتھے۔ 

ملبوسات، پارجہ جات اور جوتے چپل کی بہت زیادہ اقسام دستیاب نہیں ہوتی تھیں ۔پورا خاندان زیادہ سے زیادہ دو تین روز میں عید کے لیے خریداری مکمل کرلیتا تھا۔ مگر آج کل آٹھ دس سال کے بچّے بھی ملبوسات اور جوتے چپل خریدنے کے ضمن میں بہت نخرے دکھاتے ہیں۔ وہ پسند کے رنگ، ڈیزائن اور فیشن کی خاطر والدین کو بار بار بازاروں کے چکر لگانے پر مجبورکرتے ہیں۔ اوپر سے ہوش رُبا منہگائی نے زندگی اجیرن کردی ہے۔ 

اس برس انہوں نے ہر بچّے کے لیے تقریباً ایک ہزار روپے مخصوص کیے تھے، لیکن بازار آکر پتہ چلا کہ اس رقم میں عید کے لیے تمام ضروری اشیاء خریدنا بھی ممکن نہیں ہے۔ بچّوں کے ملبوسات بڑوں کے ملبوسات سے زیادہ منہگے ہیں۔ دکان دار منہ پھاڑ کر قیمت بتاتے ہیں اور ان جیسے خریدار کا دل چاہتا ہے کہ سر پر پیر رکھ کر بازار سے بھاگ جائے، لیکن بچّوں کی خوشی کے لیے والدین کو اپنا پیٹ کاٹ کر ان کے لیے ملبوسات اور جوتے چپل خریدنا پڑتے ہیں۔

ایک غیر ملکی بینک میں اعلی عہدے پر کام کرنے والے تاشفین احمد کے مطابق پاکستان میں ایک دین کے ماننے والے عید الفطر کا تہوار یک ساں نہیں، بلکہ دو طرح سے مناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طبقہ اُس روز اسراف کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسرا اُس روزمہمانوں کی تواضع کے لیے ڈش تیار کرنا تو کجا، اپنا پیٹ بھرنے کے لیے متفکّر دکھائی دیتا ہے۔ تاہم ہر امیر اسراف نہیں کرتا اور بہت سے امیر اُس روز اپنے غریب بھائیوں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ پھر بھی عید الفطر طبقات میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے، امیروں کی عید، غریبوں کی عید۔تاہم یہ درست ہے کہ بہت سے صاحبانِ ثروت اُس روز بھی غریبوں کو یاد رکھتے ہیں۔

خیر و شر اورغربت اور امارت اپنی جگہ، اصل بات معاشرتی رویّوں کی ہوتی ہے۔ اگر معاشرتی رویّے مناسب ہوں، تو غربت گالی نہیں بنتی اور امارت زندہ رہنے کا لائسنس قرارنہیں پاتی۔ اگر عیدالفطر خوشیاں بانٹنے کے تہوار کے طور پر منائی جائے، تو اُس روز پاکستان میں ہر چہرے پر مسّرت کے رنگ ہوں۔

 روایتی تیّاریوں کے لیے وقت نہیں

پی ای سی ایچ ایس میں رہایش پزیر سیکنڈری اسکول کی ایک ریٹائرڈ استانی، مہ جبیں کے بہ قول پہلے عید کی خوشیوں میں دولت اور ثروت کا بہت زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ اب نہ تو رمضان کے لیے وہ اہتمام کِیا جاتا ہے اور نہ ہی عید کے لیے، جو پہلے کیا جاتا تھا۔ اب ہر شخص دولت کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ہے، لہٰذا اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ عید کے لیے روایتی انداز میں تیاریاں کرے۔ غریب روپے پَیسے سے مجبور ہے اور امیر دھن دولت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔

اب لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہر خوشی پَیسوں سے خریدی جا سکتی ہے، چناں چہ خوشیاں خریدنے کے لیے دولت کمانے کی فکر لوگوں کو لاحق رہتی ہے۔ اب محبّت اور خلوص کو روپے پَیسے کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اُن کے بہ قول پہلے لوگ لباس، فرنیچر اور کھانے کی ڈشیں نہیں دیکھتے تھے۔ پینتیس،چالیس برس قبل تک کراچی میں شا ذ و نادر ہی عید کارڈ ملتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ سادہ کاغذ پر بیل بوٹے بنا کر ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد بھیجاکرتے تھے۔ کون اورپائوڈروالی منہدی بہت بعد میں آئی۔ پہلے تمام خواتین عید، بقر عید اور خوشی کے مواقعے پرمنہدی کے تازہ پتّوں سے گُل،بُوٹے بناتی تھیں۔ اس میں کوئی پائی پَیسہ خرچ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 

امیر و غریب، سب اسی طریقے سے حِنا لگاتے۔ پہلے ہر محلّےمیں منہدی کے ایک دو درخت ضرور مل جاتے تھے۔ لوگ گھروں کے باہر باڑ کے طور پر اس کے درخت لگاتےتھے۔ لہٰذا پتّوں کی دست یابی کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ کسی بھی چھوٹے یا بڑے کے ذریعے منہدی کے پتّے آس پڑوس سے منگوالیے جاتے تھے۔ چاند رات کو لڑکیاں، بالیاں، گھر کے کام کاج کرنے کے ساتھ موقع ملتے ہی پتھرکی سِل پرپتّےپیس کر کٹوری میں رکھ لیا کرتی تھیں اورکام کاج سے فارغ ہونے کے بعد فوراً ہاتھوں پر حنا لگا لیا کرتی تھیں۔ 

اس منہدی کےرنگ، فواید اورخوش بُوسے آج کی نسل کو کیا علاقہ۔ پہلے چوڑیاں بھی سادہ سی ہوا کرتی تھیں، جنہیں ریشمی چوڑیاں کہتے ہیں۔ ہر طبقے کی خواتین وہ چوڑیاں پہنا کرتیں۔ اسی طرح ہر امیر اور غریب کے ہاں شِیر خُرمہ عیدکی مخصوص ڈش کے طور پر پکتا تھا۔ مردوں اور خواتین کے ملبوسات گھر میں سِلا کرتے ۔ سِلائی کڑھائی کا کام چاند رات تک جاری رہتا اور مرد اور خواتین گھر کے سِلے ہوئے کپڑے پہننے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔

 غریب کی کش مکش

غریب اور متوسّط طبقے کےخریداروں کو خریداری کے دوران کش مکش کا شکار دیکھا گیا۔ عام طور پر ایسے خریدار کسی بازار میں داخل ہونے کے بعد پورے بازار کا چکّر لگا کر اپنی مطلوبہ اشیاء کے معیار اور نرخ کا جائزہ لیتے اور پھر مختلف دکانوں میں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے دیکھے گئے۔ کبھی انہیں کسی شے کا معیار پسند آتا، تو بات نرخ پر آ کر رک جاتی اور کبھی نرخ مناسب لگتا، تو وہ معیار سے مطمئن نہ ہوتے۔ 

غرض یہ کہ اُن کی مشکل دوطرفہ تھی۔ ایسے خریداروں کویہ فکرلاحق دیکھی گئی کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق ایسی اشیاء خرید سکیں جس کا معیار اگر بہت عمدہ نہ ہو تو کم از کم مناسب سطح کا ہو، تا کہ وہ شے کم از کم سال دو سال بہ آسانی چل سکے۔ امیر خریداروں کے لیے پسند اور فیشن کو پہلی ترجیح حاصل تھی ۔ اُن کے لیے معیار دوسرے نمبر پر تھا۔

تازہ ترین