• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہ صیام یعنی رمضان المبارک کا آخری عشرہ جاری و ساری ہے ، رحمتوں کی برسات کے تھمنے کے ساتھ ہی عید کی آمد آمد ہے ۔ یہ عید دراصل روزے داروں کے لیے انعام ہے، عید جو لفظ ہے خوشی سے عبارت ۔اور خوشی کا یہ موقع مردوں کی بہ نسبت خاتونِ خانہ کومصروف رکھنے کے لیے آتا ہے۔ جو چاہے گھریلو ہوں یا نوکری پیشہ گرم سرد موسم کی سختیوں کی پروا کیے بغیر نہ صرف روزمرہ کے کام انجام دیتی ہیں بل کہ رمضان کے مہینے کے اضافی کام بھی بہ خوبی کرتی ہیں۔ 

یعنی روزے داروں کے لیے سحری اور افطار کی تیاری بلکہ تیار کیے جانے والے لوازمات میں گھر کے تمام افرادکی پسند نا پسند کا خیال رکھتے ہوئے اہتمام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ گھر کےبزرگوںاور چھوٹے بچوںکے لیے،جو روزہ نہیں رکھ پاتے، ان کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال بھی رکھتی ہیں۔ صرف یہی نہیں،وہ اپنے مذہبی فرائض اور ماہ صیام کی خصوصی عبادات کی ادائیگی بھی خوش اسلوبی سے کرتی ہیں ۔

کسی نے بہت خوب صورت بات کہی ہےکہ اگر آپ کے گھر میں خاتون خانہ نہ ہوں اور اس کی جگہ آپ گھریلو امور کسی ملازمہ سے نمٹوانا چاہیں تو یقین رکھیے کہ ایک تو کیا دو خواتین بھی گھر بھر کے کام پر رضامند نہ ہوں گی، وہ کہیں گی یہ تمام کام تو کم ازکم چار ملازماؤں کے ہیں۔ اب اس بے چاری عورت کی قدر کون کرے کہ وہ چار چار ملازماؤں کا کام بھی کرتی ہے اور اس کی تن خواہ بھی کوئی نہیں ہوتی، بل کہ جھڑکیاں الگ کھانی پڑتی ہیں وہ بھی بے بھاؤ ۔ یہ عورتوں کا ہی جگر ہے جو سارے غم سمیٹ کر دنیا جہاں کے کام کیے چلی جاتی ہیں۔کہتے ہیں خاتون خانہ عقل مند ہونے کے ساتھ ساتھ سلیقہ مند بھی ہو تو اینٹ اور گارے سے بنا مکان بھی خوشیوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ خواتین اسی پیرائے کو سامنے رکھتے ہوئے آج کل کے مسائل سے نبرد آزما رہتی ہیں۔

تو ذکر ہو رہا ہے عید کا۔ منہگائی کے اس دور میںتہواروں کی تیاری اور اہتمام انتہائی مشکل کام ہے۔ بالخصوص سفید پوش طبقے کے لیے ۔ ہمارے وطن پاکستان میں متوسط طبقے کی تعداد سب سے زیادہ ہے ، یہ وہ طبقہ ہے جواپنا معاشرتی بھرم ہر صورت قائم رکھتاہے۔ مرد حضرات کی بہ نسبت خواتین کے لیے یہ مواقعے امتحان کا درجہ رکھتے ہیں ،سب جانتے ہیں کہ قوت خرید محدود ہونے کے باعث کم خرچ بالا نشین کا فارمولا آزمانا پڑتا ہے۔

یوں گھروالوں کی خوشی کے ساتھ ساتھ بچوں کی فرمایش کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور دنیاداری کے تقاضے اور اُمیدیں بھی پوری کی جاتی ہیں۔عید پر اکثر گھروں میں رنگ و روغن ، پردوں کی تبدیلی اور صفائی ستھرائی کے کام کیے جاتے ہیں۔بیش تر گھرانوں میں نئی آرایشی اشیاخریدنے کے بہ جائے زیر استعمال چیزوں کی از سر نو تراش خراش کرکے انھیں نیا رنگ روپ دیا جاتا ہے۔ 

بعض اوقات فرنیچر کی ترتیب بدل کر کمروں کو نیا انداز دیا جاتا ہے۔ پھر خریداری کے مشکل مراحل کم آمدنی کے باوجود طے کرنے پڑتے ہیں کہ سالانہ تہواروں پر ہر کوئی اپنے حصے کی مہر ثبت کرنا چاہتا ہے، اب اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ اپنی بساط بھر کام کرتے ہیں۔ اس بات سے کسے انکار ہے کہ عید کا سب سے اہم کام کپڑوں کی خریداری ہے۔ غریب سے غریب تر فرد کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ عید کے دن نئے کپڑے پہنے۔

عید پر مہمان داری کا سلسلہ ہماری مشرقی روایات کا حصہ ہے ۔مہمان چوں کہ ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کا اہم اور لازمی جزو ہیں۔ لہذا ان کی خاطرداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ خاتون خانہ اس مرحلے کی تیاری بھی پوری لگن سے کرتی ہیں ۔ 

عید کے لیے رمضان کے آخری ہفتے میں اشیائے خور و نوش کی خریداری کی جاتی ہے، پھر بعض گھرانوں میں عید پر بنائے جانے والے پکوانوں کی فہرست تیار کرکے اس کے حساب سے خام اشیا جیسے شامی کباب، سموسے وغیرہ تیار کرکے انھیں فریز کردیا جاتا ہے، تاکہ بہ وقت ضرورت کم وقت میں بہترین کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاسکے اور مہمانوں کے دلوں کو جیتا جاسکے۔

غرض ماہ صیام کے تیس دنوں کی تھکاوٹ اور بے آرامی کی پرواکیے بغیر خواتین عید کے تینوں دن اپنی فیملی کی مسکراہٹوں، خوشیوں اور مہمان داری کی رسومات کا بھرپور اہتمام کرتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس تمام تیاری میں خواتین اپنے ہار سنگھار کا بھی پورا خیال رکھتی ہیں، چوڑیوں، منہدی، میک اپ ہر چیز پر ان کی عقابی نظر رہتی ہے۔ لڑکیاں بالیاں اپنے کپڑوں اور میک اپ پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ آج کل کی خواتین خود ہی نئے نئے ڈیزائن تیار کرلیتی ہیں۔ ایسے ہی مواقعوں پران کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔

خواتین عید کے روز گھر آئے مہمانوں کی خاطر مدارت کرتی ہیں۔ وقت ملے تو قریبی رشتےداروں کے ہاں ملاقات کے لیے جاتی ہیں۔ نانا، نانی ، دادا، دادی کی یاد ستاتی ہے اس لیے عید کے کسی ایک روز ان کے ہاں دھرنا دیا جاتا ہے اور ماموؤں اور خالاؤں سے خوب عیدی بھی سمیٹی جاتی ہے اور ننھیال ددھیال میں خوب پکوان اُڑائے جاتے ہیں۔بچے ہر حال میں عیدکا مزا لیتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے شوروغل اور شرارتوں سے محفل کی رونق بڑھاتے اور بزرگوں کو خوش کرتے دکھائی دیتےہیں۔

عید کے پر مسرت موقع پر چوڑیاں مشرقی روایات کا سب سے خوب صورت سنگھار ہوتا ہے ،جس میں نزاکت تو ہے ہی،ساتھ میں لطافت اور نفاست بھی ہے۔عید کے روز خوب صورت کلائیاں جب کھنکتی چمکتی کانچ کی ست رنگی چوڑیوں سے سج جائیں،تو ہرطرف دھنک رنگ بکھر جاتے ہیں ۔ماحول میں چوڑیوں کی کھَنک نہ ہو تو میٹھی میٹھی عید ادھوری لگتی ہے، نازک ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں خوشیوں بھرے تہوار کی آمد کی اطلاع دیتی ہیں،ننھی بچیاں بھی چوڑیوں کے انتخاب میں کسی سے پیچھے نہیں رہتیں، وہ عید پر عمدہ رنگوں سے اپنی کلائیاں سجاتی ہیں، کانچ کی چوڑیوں کے علاوہ اب پلاسٹک، میٹل اور ویلوٹ کی خوب صورت چوڑیاں بھی خواتین میں بہت مقبول ہیں۔لیکن کورونا کی وجہ سے سماجی دوری اور احتیاطی تد ابیر کا لازمی خیا ل رکھیں ۔

تازہ ترین