• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

" عید " خوشی کا دن اور ہمارا ایسا مذہبی تہوار ہے، جس کا انتظار پورا سال کیا جاتا تھا اور اسے نہایت جوش و جذبے سے منایا جاتا تھا لیکن یہ سب کورونا وباء سے پہلے کی بات تھی ۔ اللہ توبہ! اب جیسی ڈری سہمی عیدیں تو زندگی میں کبھی نہیں آئیں تھیں ۔ کورونا کی وجہ سے پچھلے سال بھی یہی حال تھا سب ایک خوف کے عالم میں اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پچھلے سال کورونا کے کیسز کم اور خوف زیادہ تھا اور اس سال کیسز زیادہ اور خوف کم ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ عید خوشی کا دن اور ایسا تہوار ہے جو روزے رکھنے کے بعد خوشی منانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں انعام کے طور پر بخشا گیا ہے۔ 

ہمارے دو مذہبی تہواروں میں سے بقر عید تو قربانی اور گوشت کی مصروفیات میں گذر جاتی ہے، اسی لئے عیدالفطر پر لوگوں کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ملنا جلنا کیا جائے۔ گلے شکوے مٹائے جائیں اور عید کے دن سب بھول کر ایک دوسرے سے گلے ملا جائے لیکن اب گلے ملنا تو دور کی بات ہاتھ ملانا بھی منع ہے، معاشرتی میل جول بھی نہیں کرنا یعنی عافیت اسی میں ہے کہ نہ کسی کے گھر جاؤ اور نہ کسی کو بلاؤ سب کو دور سے سلام یعنی ’’ کیجئے اشارہ دور دور سے ‘‘ اور اس کے لئے فون سے بہتر کوئی طریقہ نہیں۔ 

اپنی اور دوسروں کی صحت و جان عزیز ہے تو اس عید پر موبائل اور لینڈ لائن کے ذریعے سب کو عید مبارک کردیں ۔ اب تو وڈیو کال نے یہ آسانی بھی دے دی ہے کہ ایک دوسرے کو براہ راست دیکھ کر بھی بات ہوسکتی ہے، اس لئے ہماری مانیں تو ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،اس عید پر بھی گھر میں رہ کر’’ عید مبارک ‘‘ کہنے کو ترجیح دی جائے۔یہی بہتر ہوگا رہی بات گلے ملنے کی تو ،’’مل ہی لیں گے ہم اپنے ہی گلے میں ڈال کر بانہیں‘‘پچھلے سال کچھ بچوں کو شکوہ کرتے سنا تھا کہ اس بار عیدی کم ملی ۔لگتا ہے بچے بیچارے اس سال بھی یہی شکوہ کریں گے ۔ 

ہم نے تو اس بار بھی جب عید پر کچھ لکھنے کا سوچا تو ‘‘کورونا‘‘نے کچھ لکھنے نہ دیا، کیوںکہ جب سوشل ڈسٹینسِگ کرنی ہے تو عید پر میل جول اور گلے ملنے کی تلقین کرنا قارئین کے ساتھ دشمنی ہی کہلائے گی ۔ایک عجیب خوف کا عالم طاری ہے ایسے میں لوگ سب کچھ بھول کر دیوانوں کی طرح بازاروں میں نظر آئے تو حیرت ہی ہوئی اللہ تعالیٰ سب کو اپنی امان میں رکھے۔ اپنی اور اپنے پیار کرنے والوں کی جانوں کی حفاظت کرنا بھی ہم سب پر فرض ہے۔ 

موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔زندگی ہے تو زندگی کے میلے اور خوشیاں بھی ہیں اس لئے پہلی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بیماری سے بچنے کی جو احتیاط ہم کرسکتے ہیں ضرور کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اس سال کتنے ہی پیارے جان پہچان کے لوگ کورونا کا شکار ہو کر ہم سے جدا ہوگئے ان سب کے گھر والوں کے لئے یہ عید کتنی تکلیف دہ یادیں لے کر آئی ہوگی۔ عید کے موقع پر بے اختیار یہ شعر یاد آگیا:

کتنی زلفیں ،کتنے آنچل اُڑے، چاند کو کیا خبر

کتنا ماتم ہوا، کتنے آنسو بہے، چاند کو کیا خبر

اللہ تعالیٰ جانے والے تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے( آمین)۔ ان سب تکلیف دہ واقعات کے باوجود عید کا چاند پھر نظر آرہا ہے اور عید آنے والی ہے بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ ’’ عید‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے روزوں کا انعام ہے اور ہمارے لئے ایک خوبصورت رحمت بھرا دن ہے تو آئیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری تمام عبادات اور دعاؤں کو قبول فرمائے ، رمضان المبارک میں جس طرح ہم نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے تبدیل کی اللہ ہمیں اس میں استقامت عطا فرمائے اور اے ہمارے پروردگار آئندہ آنے والی عیدیں ہمارے لئے پھر پہلے جیسی کردے، جس میں ہم دل کھول کر ایک دوسرے سے مل سکیں اور ہمیں کسی وباء کا ڈر نہ ہو لیکن یہ یاد رکھیئے گا کہ اس عید پر احتیاط کرنی ہے، کیوں کہ ’’جان ہے تو جہاںہے ‘‘۔ اس عید پر جو مل نہ سکے ہم تو کیا ہوا ۔ جذبوں میں ہو خلوص تو عیدیں ہزار ہیں آپ سب کو عید مبارک ۔

تازہ ترین