اسلام آباد (مہتاب حیدر) دی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ تنازع اس وجہ سے شروع ہوا ہے کہ حکومت نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) سے 400 ملین ڈالر کا مراعاتی قرض لینے سے انکار کردیا تھا اور اور اسے نیم پختہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے ذریعے تعمیر کرنے کو ترجیح دی تھی۔
اس اخبار میں 15 جون 2020 کو شائع ہونے والی ایک خبر میں تحریر تھا کہ اے آئی آئی بی نے تین اہم منصوبوں کے لئے 1 بلین ڈالر کے مراعاتی قرض کا وعدہ کیا جن میں جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے راولپنڈی رنگ روڈ (آر آر آر) منصوبے کے لئے 400 ملین ڈالرز اور لاہور کیلئے منصوبے بشمول ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ اور اربن یا اینوائرمنٹل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ شامل ہیں۔
اس میں مزید لکھا تھا کہ اے آئی آئی بی کے ساتھ بات چیت 2018 میں کی گئی تھی لیکن اب دو سال سے زیادہ گزر چکے ہیں اور اے آئی آئی بی اس قرض کی سہولت کو واپس لے سکتا ہے۔
اس خدشے کا اظہار کچھ متعلقہ عہدیداروں نے کیا تھا جو ان قرضوں کی قسمت کے بارے میں جانتے تھے۔
دی نیوز کے پاس دستیاب تمام متعلقہ سرکاری دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ تین منصوبے تیار کئے جارہے ہیں لیکن اب معاملات بالکل غیر واضح ہیں جہاں کسی کو قطعی طور پر معلوم نہیں کہ ان تینوں منصوبوں کا کیا حشر ہوگا۔
ابتداء ہی سے اس منصوبے سے نمٹنے والے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اب بغیر کسی مالی مطالعے کے نیم پختہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) زیر غور ہے جو مزید پیچیدگیاں پیدا کرسکتا ہے۔
تاہم پنجاب میں بزدار انتظامیہ مکمل طور پر بے خبر ہے اور منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے وسیع پیمانے پر تجاویز کو قبول کرنے کے لئے دباؤ سے پہلے دم توڑ سکتی ہے۔ یہ سب جون 2020 میں لکھا گیا تھا اور حکومت نے اے آئی آئی بی سے قرض نہیں لیا لہٰذا اب یہ سارا منصوبہ نہ ختم ہونے والے تنازع کی جانب گامزن ہوگیا ہے۔
اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ مرکز اور پنجاب دونوں ہی میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے اب انتہائی اہم منصوبے کو کولڈ اسٹوریج میں ڈال دیا ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے زیر غور ہے اور جس سے اس خطے میں ایک کھرب روپے کی اقتصادی سرگرمی شروع ہونے والی ہے۔
اب وزیر اعظم عمران خان کو وزیر منصوبہ بندی اسد عمر ، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن محمد جہانزیب خان ، چیئرمین منصوبہ بندی و ترقیات پنجاب کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دینا چاہئے۔