• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنکھوں کی عید

یہ پہلی عید ہے کہ صرف آنکھوں نے منائی، مصافحے، معانقے اور جپھے کورونا چھین لے گیا،دل چاہتا گیا آنکھیں کہتی گئیں، چاند نے اکثر مقامات پر بادلوں کا آنچل اوڑھے رکھا، چاند رات بھی گہنا گئی، صرف رات ہی باقی رہ گئی، اس کے باوجود عید کی جھنکار رستے رستے سنائی دی، اسرائیل نے حسب معمول فلسطینی مسلمانوں پر خوب موت برسائی مگر مسلم امہ کی کثرت نما جھاگ میں سے کوئی زور دار آواز نہ آئی،دو مقامات فلسطین اور کشمیر میں عید کے روز بھی باطل کاستم مسلمانوں پر ٹوٹتا رہا، پھر کورونا کیوں نہ بے حس دنیا میں موت کارقص کرے، ایک گھٹی گھٹی سی مہنگی مہنگی عید آئی بھی گزر بھی گئی، بس باقی سحریاں افطاریاں رہ گئیں، ماضی کی طرح عید کے کپڑے نہ ملنے پر خودکشیاں بھی ہوئیں، بچے بھی مارے گئے، ممتا بھی فیل ہوگئی ، پدرانہ شفقت بھی دم توڑ گئی البتہ حکمرانوں اور اشرافیہ کے ہاں اب بھی ہر روز روزِ عید اور ہر شب، شب برات، غریب عوام کے پاس 72 سالہ رات، کورونا نے جہاں خوشیوں کا گلا گھونٹا، بندۂ مفلس کا بھرم بھی رکھا، مسلم امہ کے حکمران کس منہ سے کہتے عید آئی خوشیاں لائی، سید دوعالمؐ کا فرمان ہے: عید اس کی نہیں جس نے نیا لباس پہن لیا، عید اس کی ہے جو آسمانی عذاب سے ڈرا۔ آج ہم سب کلمہ گو اپنا جائزہ لیں کہ ہمارے کرتوت کیا ہیں، کیا 52 اسلامی ممالک امت کو چھینی گئی عید لوٹا سکتے ہیں اگر نہیں تو وہ غیروں کا اپنوں کا ظلم یونہی سہتے رہیں گے۔ بہرحال آنکھوں کی عید کے نام یہ پیغام کہ ؎

اکھ لڑی بدو بدوی موقع ملے کدی کدی

کل نئیں کسے نے ویکھی مزا لیئے اج دا

الغرض میاں محمد بخش کے مطابق؎

اس دن عید مبارک ہوسی

جس دن فیر ملاں گے

٭٭٭٭

کتے ہمارے شہر کے لاتعداد ہوگئے

یوں تو بڑے شہروں میں بے گھر، بے در آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر جو کثرتِ اولاد کتوں کے ہاں ہے وہ انسانوں سے بھی باز ی لے گئی، میرے گھر سے متصل ایک خالی پلاٹ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں کتے اپنی جملہ تقریبات اور عید شبِ برأت مناتے ہیں، ان کا ایک بڑا مشاعرہ اس وقت کتوں کی درد ناک چیخوں میں بدل گیا جب ایک نہایت شریف النفس پڑوسی نے اپنی کمین گاہ سے ان پر چھروں کی بارش کردی، چھرے والی بندوق درد دیتی ہے آواز نہیں دیتی، دنیا میں بھلے انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہو مگر کتوں کو کبھی مارا نہیں جاتا، ان کے لئے ڈاگ ہائوسز بنائے جاتے ہیں، جہاں قیام و طعام کا معقول بندوبست ہوتا ہے، ان کی خاندانی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے، اسلام میں جانوروں کے باقاعدہ حقوق ہیں، مگر افسوس ہمارے ہاں جب انسانوں کے ساتھ کتوں والا سلوک کیا جاتا ہے تو بلّھےشاہ کی اس بات پر کون کان دھرے گا؎

کتے تینتھوں اُتے

مالک دے گھر راکھی کردے

تے صابر بھکے ننگے

اس وقت لاہور شہر کی چند بستیوں کو چھوڑ کر باقی پورا شہر کتاخانہ بن چکا ہے حالانکہ چاہیے کہ پنجاب اسمبلی ’’کتا بچائو ثواب کمائو ‘‘ بل پاس کرتی اور اس پر عملدرآمد بھی کراتی، کوئی شاعر بھی نہیں کہتا کہ ؎

کتا مرے تے خوشی ناں کریئے سجناں وی مر جانا

ڈیگر تے دن آیا محمد اوڑک نوں ڈب جانا

آدھی گزر گئی باقی آدھی مدت بھی گزر جائے گی مگر یہ غر یب قوم بھول نہ پائے گی تبدیلی والی رات، بہرصورت سی ایم صاحب لاہور میں کتوں کی آبادی کے لئے بھی کوئی رہائشی اسکیم بنائیں وگرنہ لاہورلا ہو، ہو، ہو جائے گا۔

٭٭٭٭

میں قرضئی آں روز ازل دا

پاکستان کا آغاز تو قرضے سے نہیں ہواتھا مگر اسے انجام تک خدا نہ کرے قرضے ہی پہنچا دیں گے، اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ حکومت قرضہ لے کر اس میں سے نوجوانوں کو 5کروڑ تک قرضہ دے گی، گویا جو نوجوان 5کروڑ قرضہ لے گا وہ ممکن ہے، شجرۂ نسب معلوم کرنے پر کسی ملک یا عالمی ادارے سے قرضہ لینے والوں کا رشتہ دار نکلے، ہم سے بعد میں آزادی لینے والے ملک بھی قرضے لے کر ساہو کار ہوگئے اور ہم جو آزادی پانے والوں میں سب سے سینئر ہیں وہیں کھڑے ہیں جہاں مائی بھاگی کھڑی گا رہی تھی؎

کھڑی نیم کے نیچے بانوری

جیسے ناکام ازلی پوستی کو باپ کپڑے کی دکان کھول کرد ے دے اور وہ اسے ایک عدد دوشیزہ کے ہاتھ لٹا دے، ایسے ہی ہمیں بابائے قوم نے پاکستان بنا کر دیا ہم نے پہلے اس کے دو ٹکڑے کئے تاکہ آسانی سے حلق سے اترے، پھر آئی ایم ایف سے ہر دور میں اتنے قرضے لئے جتنے کرپشن کا بازار گرم کرنے کے لئے ضروری تھے، اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ؎

تُو نے عزت بیچ ڈالی ایک فاقے کو ٹالنے کے لئے

لوگ یزداں کو بیچ ڈالتے ہیں اپنا مطلب نکالنے کیلئے

سمجھدار لوگ شعر کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے، ہمارے وزیراعظم نیک نام ہیں، لوگ ان کو دھڑا دھڑ قرضے دے رہے ہیں، کیونکہ یہ اتارنے ان کے ہم وطنوں نے ہیں اس لئے واپسی کی فکر وہ کیوں کریں؟ آنے والی حکومت کو بھی قرضہ جہیز میں ملے گا اور وہ اس کی آڑ لے کر مایوس بھکاری جیسا منہ بنا کر کہے گی کیا کروں پچھلی حکومت نے یہ بوجھ لادا ہے، اب مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔

٭٭٭٭

روٹی نہ سہی ٹھنڈ ہی سہی

...oوزیر اعظم: ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہو چکا ہے۔

کیا اشرافیہ بولتی بھی ہے؟

...oشہباز شریف کو عدالت نے باہر جانے کی اجازت دی، ایف آئی اے والے راہ میں کھڑ ے تھےو ہی ساتھ ہولئے۔کیا ایف آئی اے عدلیہ سے بھی اوپر ہوتا ہے؟ اس طرح تو وہ اوپر بھی جا سکتا ہے، پر کتھوں!

...oاپوزیشن کے پہلو میں بہت شور سنتے تھے مگر غریب کی یہ آخری آس بھی یاس میں بدل گئی، اب کسے عوام وکیل کریں، کسے رہنما؟

...oان دنوں موسم کا حال سنئے؎

موسم کا حال بھی ہم جیسا ہے

آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے

٭٭٭٭

تازہ ترین