اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے پانچ کلو چرس کی اسمگلنگ کرنے کے مقدمہ ملزم ظفر اللہ کی جانب سے ساڑھے سات سال سزائے قید کیخلاف دائر کی گئی اپیل خارج کر تے ہوئے قرار دیا ہے کہ محض تکنیکی بنیادوں پر ملزم کی سزا ختم نہیں کی جاسکتی ہے جبکہ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ریمارکس دیئے کہ وہ دور گیا جب ملزمان کو تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر چھوڑ دیا جاتا تھا
یہ ملزم اگر کسی دوسرے ملک میں منشیات اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار ہوتا تو اسے لٹکا دیا جاتا، لیکن پاکستان کو منشیات فروشوں کیلئے جنت بنا دیا گیا ہے، ہمارے ملک میں نام نہاد شرفا ء گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز منشیات اسمگلنگ کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی تو ملزم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ بر آمد ہونے والی منشیات کے نمونے کا تجزیہ ایس او پی زکے تحت نہیں کیا گیا ہے۔
انہوںنے اس حوالے سے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نمونے کی جانچ مروجہ طریقہ کار کے معیار کے مطابق لازمی ہے،انہوں نے ٹرائل میں ایک اور تکنیکی خامی کی نشاندہی کی اور کہا کہ تمام گواہیاں سرکاری ملازمین کی جانب سے ریکارڈ کروائی گئی ہیں،ملزم کیخلاف کوئی غیر جانبدار گواہ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے ،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ملزم کیخلاف شہادتوں کی لڑی مکمل ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ملزم کی سزا برقرار رکھتے ہوئے اپیل خارج کردی،واضح رہے کہ ملزم کو 13 دسمبر 2013 کو نواب شاہ کے علاقے سے پانچ کلو گرام چرس سمگل کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا ،جس پر ٹرائل کورٹ نے ساڑھے سات سال قید کی سزا سنائی تھی،جسے ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔