سمیرا حمید
باپ بیٹی ایک گھاٹی کی بلندی پر پیر لٹکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔سمندر کی لہروں کا شور، پرندوں کی چہچہاہٹیں، ہوا کی سر مستیاں، اور غروب ہوتے سورج کی الوادعی کرنیں۔۔۔۔۔۔دنیا کیسی خوب صورت تھی۔۔۔۔۔۔
’’ ایک اور سورج غروب ہو گیا‘‘۔۔۔۔۔۔باپ نے آہ بھر کر کہا۔
’’آج کا سورج، کل کے سورج کے لیے رخصت ہو گیا۔آپ نے ایسے کیو ں نہیں کہا ابو؟‘‘بیٹی نےپوچھا۔وہ ہنس دیے’’تم جوان ہو۔ تمہارے پاس بہت سورج پڑے ہیں۔ میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ ایک ایک سورج کو انگلیوں پر گنتا ہوں۔میری عمر کے دن ہی کتنے بچیں ہوں گے‘‘۔’’زندگی میں بہت سورج دیکھے، اب اگلی زندگی کا سورج دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ایسے کیوں نہیں سوچا؟‘‘ بیٹی نے کہا،وہ ہنسنے لگے۔’’تم پر امید ہو۔۔۔۔۔‘‘۔
’’آپ کے ناامید ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہےابو؟‘‘
’’تمہیں موت سے ڈر نہیں لگتا،۔۔۔۔۔۔؟" باپ نے بیٹی سے پوچھا، ’’کیا زندگی نے آپ کو ڈرایا؟اگر نہیں تو پھر موت سے کیسی ناراضی؟‘‘ بیٹی نے برجستہ جواب دیا
’’اگر میں مر جاؤں تو کیا تمہیں دکھ نہیں ہو گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی بیٹی کی صورت دیکھنےلگے۔
’’بہت ہو گا۔ غم سے میرا دل پھٹ جائے گا۔لیکن کیا آپ اکیلے ہیں جو مر جائیں گے؟ کیا میں ہمیشہ زندہ رہوں گی؟‘‘ بیٹی نے جواباََ کہا، باپ نے بیٹی کی پیشانی چوم لی۔۔’’مجھے تم پر فخر ہے۔۔۔۔۔۔‘‘وہ لاجواب ہو چکے تھے۔
’’آپ کو مجھ پر ہمیشہ فخر رہے گا۔۔۔۔۔‘‘ بیٹی نے کہا اور باپ کے گلے لگ گئی۔
نوجوانو!کبھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ سوچ مثبت رکھنا۔ ہر روز زندگی کا سورج اسی طرح غروب ہوتا ہے، جس طرح سورج لیکن دوسرے دن دنیا پھر خوب صورتی کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتی ہے۔