17؍ نومبر 1952ء کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شمال مشرقی ساحلی شہر سلہٹ کے ایک متوسط سے گھرانے میں جنم لینے والی خوش گلو رونا لیلیٰ کی والدہ شوقیہ گائیکی کرتی تھیں اور بڑی بہن دینا لیلیٰ بھی گائیکی سے شغف رکھتی تھیں، لہٰذا رونا لیلیٰ کو یہ فن ورثہ میں ملا۔ ان کے والد امداد حسین سی کسٹم (Sea Custom) میں سینئر آفیسر تھے۔ رونا لیلیٰ کی والدہ شوقیہ گائیکی کا شوق خاندان، دوستوں عزیز و اقارب کی محافل میں گاکر پورا کیا کرتی تھیں، جب کہ بڑی بہن دینا قدرے پروفیشنل گلوکارہ تھیں۔
رونا لیلیٰ نے فلمی گائیکی کا آغاز دردانہ پکچرز کے بینر تلے بننے والی فلم ’’جگنو‘‘ سے کیا، جس کے ہدات کار ممنون حسین خان تھے۔ یہ فلم بارہ اپریل 1968ء کو ریلیز ہوئی تھی اور فلم کے موسیقار ماسٹر منظور حسین نےرونا لیلیٰ سے یہ نغمات گوائے تھے۔٭ گڑیا سی منی میری بھیا کی پیاری پھولوں کی رانی (شاعر تشنہ میرٹھی)۔ ٭ ملتا نہیں ہے سکون ہائے میں کیا کروں (شاعر سردار ادیب)۔ ٭ہو نیا رے نیا رے طوفانی لہروں سےلڑتی بتارے (ہمراہ دینا لیلیٰ، شاعر تشنہ میرٹھی)۔
واضح رہے کہ فلم ’’جگنو‘‘ سال 1966ء کے آغاز میں بننا شروع ہوئی تھی، مگر دیر سے مکمل ہونے کے بعد یہ فلم 1968ء میں سنیما کی زینت بنی اور اس فلم کے ریلیز سے بہت پہلے رونا لیلیٰ کی دل کش نغمات سے سجی فلم ’’ہم دونوں‘‘ بارہ اگست 1966ء کو نمائش کے لیے پیش کردی گئی تھی، جس میں انہوں نے نامور موسیقار ناشاد کی موزوں کردہ دھنوں پر شاعر کلیم عثمانی کے یہ نغمات دل کشی سے گائے۔٭ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا۔٭مرنا بھی نہیں آسان جینا بھی قیامت ہے۔٭چلی ہو چلی ہو تم کہاں دلربا (ہمراہ احمد رشدی)۔ہدایت کر الحامد کی اس فلم کے لیے ایک نغمہ مسرور انور نے بھی لکھا اور اسے رونا لیلیٰ نے گایا، بول تھے ٭لٹ گئی رے بے دردی میں تو لٹ گئی رے۔
رونا لیلی نے فلم ’’ہم دونوں‘‘ کا نغمہ ’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ اتنا شان دار گایا تھا کہ ان کی مانگ میں اضافہ ہوگیا اور نامور موسیقار رشید عطرے جو اسی سال ہدایت کر لقمان کی فلم ’’محل‘‘ کا میوزک ترتیب دے رہے تھے، انہوں نے رونا لیلیٰ سے احمد رشدی کے ساتھ فیاض ہاشمی کا دل کش دوگانا ریکارڈ کروایا ۔ ٭سُنا ہے کہ دل دے کے دیتے ہیں دھوکا مگر میری جان تم تو ایسے نہیں ہیں۔سال 1966ء میں رونا لیلی کی ہم دونوں ہی واحد ریلیز فلم تھی، بعد ازاں انہوں نے 1968ء میں اپنی آواز کا جادو ان فلموں میں جگایا ۔’’استادوں کے استاد‘‘، ’’پھر صبح ہوگی‘‘، ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘، ‘‘ میرے بچے میری آنکھیں‘‘ اور فلم ’’ہمدم‘‘۔ ہدایت کار رفیق روی کی فلم ’’پھر صبح ہوگی‘‘ میں رونا لیلیٰ نے بھی گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ ٭پیار ہوتا نہیں زندگی سے جدا۔ ٭ دیا رے دیا رے کانٹا چبھا مورے پائوں میں (ہمراہ رفیق چوہدری)۔٭جب سے بے دردی یہ دل مورا آیا رے (ہمراہ خورشید بیگم)۔٭ڈرگئیو چھلیارے ہو جارے چھل بلیارے (ہمراہ رفیق چوہدری)
ناشاد نے اس فلم کی موسیقی دی تھی اور ناشاد ہی کی موسیقی میں رونا لیلیٰ نے ہدایت کر قمر زیدی کی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ کے لیے احمد رشدی کے ساتھ یہ خُوب صورت دو گانا گایا۔ ٭معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے، نظروں سے ملیں نظریں کیا ہوگا خدا جانے۔ رونا لیلی کی پنجابی زبان کی پہلی فلم ’’جگ بیٹی‘‘ 8؍مارچ 1968ء کو ریلیز ہوئی۔ ہدایت کار ایم جے رانا کی اس فلم میں موسیقار بابا چشتی نے رونا لیلی سے شاعر حزیں قادری کا یہ گیت گوایا۔٭ماہیا وے بنگلہ پوادے ایتھے۔
اسی سال انہوں نے جگ بیتی کے علاوہ پنجابی فلموں ’’چن چودھویں دا‘‘ اور ’’کنجوس‘‘ کے لیے بھی نغمہ سراہی کی۔ فلم کنجوس میں انہوں نے حزیں قادری کا لکھا یہ کورس گیت بابا چشتی کی بنائی طرز پر اپنی بہن دینا لیلیٰ کے ساتھ گایا۔ ٭کدی چھبدی اے دھپ کدی چھبدی اے۔ 1968ء میں جن اردو فلموں کے لیے موسیقاروں نے رونا لیلی کی آواز کو اپنی دھنوں سے سجایا، ان میں ایک مسافر ایک حسینہ، بہن بھائی، بیٹی بیٹا، بزدل، پاپی، تاج محل، جگنو، دل دیا درد لیا، زندگی، سمندر، صاعقہ، عورت اور زمانہ، عاشق، کھلونا، کٹاری، کمانڈر، گھر پیارام گھر، محل اور ولی عہد شامل ہیں۔ ان فلموں میں ہدایت کار جعفر ملک کی فلم ’’کمانڈر‘‘ کے اس گیت ’’جان من اتنا بتادو محبت محبت ہے کیا‘‘ کی بے مثل گائیکی کے صلے میں وہ نگار ایوارڈ سے نوازی گئیں۔
کمانڈر کےموسیقار عبداللہ اور گیت نگار مشیر کاظمی تھے۔ جعفر شاہ بخاری کی فلم ’’عورت اور زمانہ‘‘ میں موسیقار جوڑی غلام نبی عبداللطیف نے ان سے سندھی فلموں کے مقبول گلوکار محمد یوسف کے ہمر اہ شاعر تنویر نقوی کا یہ دلکش دوگانا گوایا۔٭یہ رات یہ تنہائیاں بھیگی ہوئی ہیں چاندنی۔ ٭ڈھلنے لگیں پرچھائیاں۔ گلوکار محمد یوسف کا کسی بھی اردو فلم کے لیے گایا یہ واحد گانا بھی تھا۔ ہدایت کار ثقلین رضوی کی ملبوساتی فلم ’’ولی عہد‘‘ میں انہوں نے موسیقار خلیل احمد کی بنائی اس خوب صورت دھن کو انتہائی شان دار گایا ، شاعر کلیم عثمانی تھے۔
یہ فلم 22؍ دسمبر 1968ء کی عید الفطر پر ریلیز ہوئی۔ ٭تیری خاطر زمانے بھر کو ہم ٹھکرا کے آئے ہیں۔ رونا لیلی نے سال 1968ء میں سندھی زبان کی فلم ’’ نوشہروفیروز‘‘ کے لیے بھی نغمات گائے اور بہت خوبی سے سندھی نغمات گائے۔ سال 1969ء میں ان کی لوچ دار آواز سے سجی فلموں میں آسرا (اس فلم میں محمد علی اور شبنم پہلی باریکجا ہوئے) مسرور انور کے گیتوں کو رونا لیلی نے نثار بزمی کی بنائی دھنوں پر بڑے رچائو کے ساتھ گایا اور 1969ء کی عیدالاضحی کی خوشیوں کو ان کے گائے گیتوں نے دوبالا کردیاتھا۔ ٭السلام علیکم (ہدایت کار فیروز کی اس فلم میں رونا لیلی کا گایا گیت ’’ہولے ہولے پون چلے ڈولےجیا رے‘‘ تو گلی گلی گونجا ۔
اس گیت کو شبی فاروقی نے لکھا اور کمپوز اے نند صابر نے کیا۔ پیا ملن کی آس ، پیار کی جیت، جیسے جانتے نہیں (سید سلیمان کی اس رومانوی نغمالی فلم میں رونا لیلی اور دینا لیلی نے نثار بزمی اور مسرور انور کا لکھا دوگانا نہایت کلاسیکل انداز میں گوایا۔ ٭بہار کی رت آئی، آئی آئی رے بہار کی رت آئی۔ خون نا حق، دیا اور طوفان، داستان، زندگی کتنی حسین ہے ۔ ہدایت کار ریاض بخاری کی اس فلم میں موسیقار ایم اشرف نے رونا لیلی سے خواجہ پرویز کا لکھا یہ خوب صورت گیت گوایا۔ ٭زندگی کتنی حسین ہے ساتھ میرا تم اگر دو موت کا بھی غم نہیں ہے۔
سالگرہ، عندلیب،ہدایت کار فرید احمد کی اس گولڈن جولی ہٹ فلم میں رونا لیلی نے نثار بزمی کے کمپوز کردہ کلیم عثمانی کے تحریر کردہ ان تین گیتوں کو خوبصورتی سے گایا۔ ٭ہو تیرے وعدوں نے ہائے میرے جھوٹے صنم دل بے قرار بے قرار کیا۔ ننھی منی گڑیا رانی ایک پہیلی بوجھو نا۔ ٭جھوٹے وعدوں سے نہ دل بہلائیے (ہمراہ دینا لیلی)
قسم اس وقت کی، گھر داماد، لاڈلہ، میری بھابھی، ننزنین، نانز، پنچھی تے پردیسی، دلبر جانی، سو دن چور دا، لچھی، لنگوٹیا، نکے ہوندیاں دا پیار اور یملا جٹ شامل ہیں۔
سال 1970ء میں رونا لیلی کی قرینے، سلیقے اور قاعدے س سجی گائیکی والی فلموں میں آنسو بن گئے موتی (اگر میں بتادوں میرے دل میں کی ہے کہیں مجھ سے دامن چھڑاتو نہ لو گے، قتیل شفائی، ماسٹر عنایت حسین) انجمن (حسن طارق کی اس شاندار پلاٹینم جوبلی فلم کے لیے نثار بزمی نے رونا لیلی سے مسرور انور کے لکھے یہ دو زبردست گیت گوائے ’’دل دھڑکے میں تم سے یہ کیسے کہوں کہتی ہے میری نظر شکریہ‘‘ اور ’’آپ دل کی انجمن میں حُسن بن کر آگئے‘‘ اس دوسرے گیت کے لیے رونا لیلی نے اپنا دوسرا نگار ایوارڈحاصل کیا۔
کردار، نصیب اپنا اپنا (قمر زیدی کی اس فلم میں نہایت شان دار ایک گیت ’’ملی گل کو خوشبو مجھے مل گیا تو پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔‘‘ رونا لیلی نے موسیقار جوڑی لال محمد اقبال کی بنائی طرز پر گانا اسے مسرور انور نے لکھا۔ بھولے شاہ۔ راجہ رانی (پہلی فلم جو اردو اور پنجاب میں الگ الگ بنی)علی بابا، غیرت شان جواناں دی شامل ہیں۔ سال 1971ء میں رونا لیلی کے گیتوں سے سجی فلموں میں ایک سپیرا (وعدے کرکے صنم کیوں نہ آئے، تسلیم فاضلی، ناشاد) آنسو بہائے پتھروں نے، تہذیب (شاعر سیف الدین سیف کے لکھے چار سولو اور دو کورس گیتوں کو موسیقار نثار بزھی نے رونا سے گوایا جو اس فلم کی کام یابی کا اہم عنصر ثابت ہوئے ’’کیساجادوگر دلبر مستانہ ہے‘‘۔