• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں یہ واقعہ ایک ڈچ میگزین میں شائع ہوا ہے جس میں عقلمند کیلئے اشارہ ،عارف کیلئے معرفت اور عام قاری کیلئے بھلائی پوشیدہ ہے۔اس واقعہ کو میں اپنے حساب سے عرض کرتا ہوں۔

ایک امریکی نوجوان ڈیوٹ ویلس نے ارادہ کیا کہ وہ ایک جاسوسی ڈائجسٹ نکالے ، اپنے والد سے اس نے ابتدائی سرمایہ کے طور پر 300ڈالرز مانگے مگر والد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ڈیوٹ پیسے کا استعمال کرنا نہیں جانتا اور اسے ضائع کردے گا۔ بعد ازاں بمشکل اس نے اپنے بھائی سے کچھ رقم حاصل کی اور جنوری1920میں پہلا شمارہ شائع کیا جو تعداد میں چند سو کاپیوں سے زیادہ نہیں تھا۔ اب ڈیوٹ کے سامنے دوسرا مسئلہ تھا۔ اس نے اپنا میگزین نیو یارک کے مختلف پبلشنگ اداروں کو دکھایا اور کہا کہ اس کوفروخت کرنے میں اس سے تعاون کریں۔مگر تمام اداروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ میگزین بہت سنجیدہ (Too Serious) ہے اور اتنے زیادہ سنجیدہ پرچے کیلئے مارکیٹ موجود نہیں۔ یہ بڑا نازک مسئلہ تھا کہ اخبارات و رسائل ڈسٹری بیوٹر اور دوسرے پبلشنگ اداروں ہی کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہیں اور ان اداروں نے ڈیوٹ سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ۔ تاہم ایک امکان بدستور ڈیوٹ کیلئے باقی تھا وہ یہ کہ خریداروں تک براہ راست پہنچے۔اس نے بہت سے پتے حاصل کر کے لوگوں کو براہ راست خطوط لکھے۔ اسی کے ساتھ اس نے اخبارات میں اشتہار شائع کیا۔عام حالات میں ایک غیر معروف میگزین کیلئے اس طرح خریدار حاصل کرنا بظاہر ناممکن تھا مگر ڈیوٹ کی ایک تدبیر نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اس نے اپنے خطوط اور اشتہارات میں جو باتیں لکھیں ان میں سے ایک بات یہ تھی ’’قاری اگر میگزین کو پڑھنے کے بعد مطمئن نہ ہوں تو خریداری ختم کر دی جائے گی اور اسکی پوری رقم اسکو واپس کر دی جائے گی ‘‘اس پیشکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈیوٹ کے پاس خریداری کی فرمائش اور منی آرڈر آنا شروع ہو گئے ،پہلے ہی مرحلہ میں اس نے اتنی رقم حاصل کر لی جس سے دوسرا شمارہ بھی بآسانی چھپوایا جا سکے۔ ڈیوٹ کا منصوبہ کامیاب رہا ۔کسی ایک خریدار نے بھی اپنی ممبر شپ ختم نہیں کی ۔کسی نے بھی رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس نے عام خریداروں تک پہنچنے کی کوشش کو تیز کر دیا۔فروری1922ء میں اس کا میگزین 5ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا اس کے بعد وہ بڑھتا رہا۔یہاں تک کہ 1987میں وہ 28ملین سے زیادہ تعداد میں دنیا کی پندرہ زبانوں میں 139 ایڈیشن شائع کرتا رہا، یہ وہی میگزین ہے جو آج ساری دنیا میں ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایک وقت میں وہ دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا میگزین رہا ۔ 1980میں ڈیوٹ پچاس ہزار ملین ڈالرز کا مالک تھا۔ تاہم یہاں میگزین کی کامیابی کیلئے ایک اور تدبیر ضروری تھی اگر یہ دوسری تدبیر موجود نہ ہوتی تو صرف پہلی تدبیر اسکی ناکامی میں اضافہ کے سوا اسے کچھ اور دینے والی ثابت نہ ہوتی دوسری تدبیریہ تھی جسکو اعلیٰ معیار کہا جاتا ہے۔ یعنی میگزین کو معیار کے اعتبار سے ایسا بنا دینا کہ پڑھنے کے بعد قاری کو وہ حقیقتاً پڑھنے کی چیز نظر آئے وہ اس کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھے کہ اسکی خریداری کیلئے جو رقم اس نے بھیجی ہے وہ صحیح بھیجی ہے اور اسکو اپنی خریداری جاری رکھنا چاہئے ۔اپنے میگزین میں یہ دوسری صفت پیدا کرنے کیلئے ڈیوٹ کو غیر معمولی محنت کرنا پڑتی تھی۔اس کا ماہنامہ ایک ڈائجسٹ تھا یعنی مختلف مطبوعہ مضامین کا انتخاب۔ ڈیوٹ یہ منتخب مضامین حاصل کرنے کیلئے نہ صرف مارا مارا پھرا کرتا تھا بلکہ روزانہ چالیس سے زیادہ میگزین پڑھتا تھا۔کئی کئی دن اور راتیں مسلسل جاگ کر وہ اپنے میگزین کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ۔یہ سب میگزین کبھی وہ خرید کر اور کبھی مختلف لائبریریوں میں جا کر حاصل کرتا تھا اور پھر بڑے سلیقہ اور احتیاط، قرینہ سے انہیں کانٹ چھانٹ کر اپنے میگزین کی زینت بناتا تھا۔ اس پر مشقت کام کیلئے ڈیوٹ کو لوگوں کے طعن و طنز بھی سننے اور سہنے پڑتے تھے۔ مثلاً بہت سے لوگ اس کو محض ’’قینچی ایڈیٹر ‘‘کہنے لگے ۔کچھ نے اس کا نام ’’سیکنڈ ہینڈ ایڈیٹر ‘‘رکھ دیا مگر وہ ہر مخالف بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ڈیوٹ ویلس جسکا انتقال 1981میں ہوا اس کے سوانح نگار نے اسکی کامیابی کا راز ان الفاظ میں بیان کیا ہے، جس چیز نے اس کو غیر معمولی بنایا وہ اسکا گہرا اور دائمی تجسس تھا، مزید یہ کہ وہ کام کرنے کی بے پناہ طاقت رکھتا تھا …ڈیوٹ ویلس کے ایک دوست نے ٹائمز میگزین میں اس کے حوالے سے ایک مضمون سپرد قلم کیا تھا۔ جس میں وہ لکھتا ہے کہ ’’جتنا وہ بولتا ہے اس سے بہت زیادہ سنتا ہے ‘‘۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں مواقع اور امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست کبھی ختم نہیں ہوتی جب بھی ایک امکان ختم ہو، آدمی کو فوراً دوسرے امکان کی تلاش میں لگ جانا چاہئے، آدمی اگر ایسا کرے تو وہ دیکھے گا کہ جہاں حالات نے بظاہر اسکی ناکامی کا فیصلہ کر دیا تھا وہیں اس کیلئے ایک نیا شاندار امکان موجود تھا جسکو استعمال کر کے دوبارہ وہ اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ کہ ہر شام کے بعد دوبارہ نئی صبح آتی ہے مگر صبح کو پانے والا صرف وہ شخص ہے جو صبح کے آنے تک اسکا انتظار کرے۔

کون کہتا ہے رستہ مشکل ہے

دیکھئے میں بھی تو گزر آیا

تازہ ترین