• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف پیچھے ہٹتے ہیں یا پھر شہباز شریف آگے بڑھتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس سے مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم کی سیاست کی سمت طے ہوجائے گی۔ ہے تو یہ خاندانی سیاست کی اندرونی کشمکش، لیکن اس کے مضمرات کافی فیصلہ کن ہوں گے۔ 

روز اول سے شہباز شریف افہام وتفہیم کی سیاست کے قائل رہے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کے تابعدار اور برے وقت میں ساتھ بھی نبھاتے رہے۔ بدترین مواقع پر بھی انہوں نے مصالحت کی کھڑکیاں کھلی رکھیں، لیکن اپنے بھائی کی سیاست کی قیمت پر نہیں۔ 

ان دونوں بھائیوں کی سیاست میں سب سے اہم رول ان کے والد محترم میاں شریف کا رہا اور ان کی وفات کے بعد میاں نواز شریف خاندان کے سرپرست بن کے ابھرے۔ پہلے سارا کاروبار اور سیاست مشترک تھی۔ اب سب کے الگ الگ کاروبار ہیں اور ترجیحات بھی۔ 

اگلی نسل میں وہ یکجہتی بھی نہیں جو پچھلی نسل میں تھی۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میاں نواز شریف زندگی بھر کے لئے عوامی نمائندگی کے حق سے محروم کردئیے گئے ہیں اور میاں شہباز شریف کے لئے غالباً یہ آخری موقع ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوسکیں۔ 

نواز شریف نے اپنی نااہلی پر شہباز شریف کو پارٹی کا صدر نامزد کیا اور وزارت عظمیٰ کے لئے بھی وہ ان کی پہلی چوائس تھے۔ دونوں بھائیوں کی عدم موجودگی میں عملاً مریم نواز اپنے والد کا مزاحمتی بیانیہ لے کر بہت مقبول ہوئیں اور اتنی کہ وہ ن لیگ کا عوامی چہرہ بن گئیں۔ 

اب لوگ مریم ہی کی آواز پہ اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ اپنے والد کی سپرستی میں ن لیگ کی عوامی لیڈر تسلیم کی جانے لگی ہیں۔ جتنی وہ مقتدرہ کے خلاف ڈٹیں، اتنی ہی انہیں مقبولیت ملی۔ شہباز شریف کی رہائی کے بعد حالات نے پلٹا کھایا ہے۔ وہ اب زور شور سے اپنی لائن پہ ڈٹ گئے ہیں۔ وہ پارٹی کے صدر بھی ہیں اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی۔

 ان کے سامنے بڑا ہدف 2023ء کے عام انتخابات ہیں اور وزارت عظمیٰ کا قلمدان بھی۔ وہ کسی بھی قیمت پر اس ہدف کو حاصل کرنے کے متمنی ہیں اور اس کے لئے راستہ مقتدرہ کے ہیڈکوارٹر سے ہوکر گزرتا ہے، جہاں ان کے لئے کافی نرم گوشہ ایک عرصہ سے موجود ہے۔ 

یہ شہباز شریف ہی تھے جن کی خاموش ڈپلومیسی شریف خاندان کے کام آئی۔ ان کے خیال میں مقتدرہ سے تصادم ن لیگ کو بند گلی میں لے گیا ہے اور وہ اس بند گلی سے نکلنا چاہتے ہیں جبکہ نواز شریف اور ان کے بیٹوں پہ کوئی بوجھ نہیں اور بیٹی پر بھی کوئی ایسا کیس نہیں جو ان کے ہاتھ باندھ سکتا ہو۔ لہٰذا وہ فرنٹ فٹ پر کھیل سکتے ہیں جو ان کی بیٹی کی مزاحمتی سیاست کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہے۔

 نواز شریف اور شہباز شریف کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب دو متضاد طرزِ عمل نہیں چل سکتے۔ ویسے بھی پی ڈی ایم کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے اور مریم نواز نے اپنی ناپختگی کے باعث اسے توڑ دیا ہے۔ نواز شریف کی مزاحمتی سیاست کو جو عوامی حمایت درکار تھی وہ نہ مل سکی۔ نعرہ بازی سے بھلا مقتدرہ کا راج کب جانے والا تھا۔ نہ ہی ان کی جماعت کی کوئی مزاحمتی روایت ہے۔ 

مسلم لیگ کے طبقاتی خمیر یا جینز میں کسی طرح کی انقلابی امنگ تھی نہ ہے۔ نواز شریف کی سیاست پی این اے کے گرد و غبار میں جنرل ضیاء الحق کی نرسری میں ابھری اور وہی ان کی لیگ کے کرم فرما تھے۔ جو 1973 کے آئین کے خالق بھٹو کے عدالتی قتل کے ذمہ دار بھی تھے۔

پھر جنرل اسلم بیگ نے بے نظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا جس کے سالار نواز شریف تھے۔ چونکہ آٹھویں ترمیم کے سامنے کوئی اسمبلی اور کوئی وزیراعظم نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اس لئے 90 کی دہائی میں کوئی حکومت مدت پوری نہ کرسکی اور ہر وزیراعظم کا تقریباً ہر آرمی چیف سے تصادم ہوتا رہا۔ 

نواز شریف کی سیاسی کایا پلٹ ہوئی تھی تو ان تلخ تجربات کے باعث جو انہیں بطور سویلین چیف ایگزیکٹو درپیش آئے لیکن چارٹر آف ڈیموکریسی پہ دستخط کرنے کے باوجود دونوں جماعتیں مقتدرہ کے ہاتھوں کھلونا بنی رہیں اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں۔ 

اپنی تیسری حکومت میں بھی نواز شریف مسلسل مقتدرہ سے سمجھوتے کرتے رہے تاآنکہ وہ پھر مقتدرہ سے متصادم ہوکر اقتدار سے باہر ہوگئے۔ لیکن نواز شریف میں ایک غضب کی خوبی ہے کہ وہ بری طرح پھنس کر بھی جال سے نکل جاتے رہے جیسا کہ مشرف سے ڈیل اور اب پھر وہ عمران خان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ 

پنجاب اور اس کے تاجروں کی نمائندہ جماعت کے وصف میں تھا کہ وہ سمجھوتہ بھی کرے اور کبھی کبھار آنکھیں بھی دکھائے۔ بھٹو اور بھٹو مخالف سیاست میں سے نواز شریف ایک متبادل رول ماڈل کے طور پر سامنے آئے جو پنجابی بورژوازی کے دہرے کردار اور سرعت سے معاشی اور سیاسی پھلانگ کا مظہر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نعرہ تو ابھی بھی جیئے بھٹو کا لگاتی ہے، لیکن یہ بھی شریفوں کی سیاست اپنا کر اپنا حقیقی عوامی کردار کھو بیٹھی ہے۔

بائیکاٹ، دھرنے اور استعفوں کی سیاست کے غبارے سے ہوا نکلنے کے بعد قبل از وقت عمران حکومت کو چلتا کرنے کا عزم خاک میں مل گیا اور پی ڈی ایم تقسیم ہوکر اپنی مزاحمتی قوت گنوا بیٹھی۔ 

اگر یہ واقعی مقتدرہ کو آئین کے قالب میں ڈھالنے میں سنجیدہ ہوتی تو یہ ایک بڑے عوامی انقلاب کی تیاری کرتی یا پھر ایک تدریجی اصلاحاتی حکمت عملی ترتیب دیتی اور خالی خولی نعرہ بازی پہ اکتفا نہ کرتی۔ اب بچا ہے تو ان ہائوس تبدیلی اور سلیکٹڈ کی جگہ سلیکٹڈ بننے کا گھن چکر۔ لیکن جو اپوزیشن اکٹھی نہ رہ سکی وہ ایک متبادل انتظامیہ سامنے لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ 

لگتا ہے کہ اب تبدیلی کا رہٹ 2023 کے انتخابات ہی میں چلے گا اور شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی نگاہیں اسی پر ہیں۔ پی ڈی ایم کے پاس اب قبل از وقت انتخابات کرانے کی قوت نہیں رہی، لہٰذا یہ بھی اب 2023تک انتظار کرنے پر مجبور ہوگی۔ 

ان حالات میں نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کا سکہ چلنے والا نہیں اور شہباز شریف یہ جانتے ہوئے ہی خم ٹھونک کر میدان میں اترے ہیں۔ دیکھتے ہیں شریف خاندان کی سیاست کیا کروٹ لیتی ہے اور اس کے لئے شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے پائوں پڑنے یا پھر سیاست سے کنارہ کشی کے لئے بھی تیار ہیں۔ 

دیکھتے ہیں کہ ووٹ کو کتنی عزت ملتی ہے۔ لیکن خاندانی سیاست کے ہیر پھیر سے بھلا بی بی جمہوریت کو کیا حاصل؟

تازہ ترین