• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ٹولنٹن مارکیٹ کے بارے میں ہم نے گزشتہ کالم میں کچھ اپنی پرانی یادوں کا ذکر کیا تو ہمیں امریکہ، ڈنمارک، ناروے، کینیڈا، آسٹریلیا اور سویڈن سے کئی فون آئے اور اندرون ملک سے تو خیر بے شمار کالیں آئیں۔ دوستوں کا یہ کہنا تھا کہ آپ نے ہمیں اپنے اسکول اور کالج کا زمانہ یاد کرا دیا۔

گورنمنٹ کالج لاہور اور ضلع کچہری کے سامنے سڑک پر بہت بڑا گول چکر (رائونڈ ابائوٹ) تھاجس پر سفید اور کالے رنگ کی بڑی بڑی لائنیں لگی ہوئی تھیں ۔ لاہور میں ایک زمانے میں ٹریفک کو رواں رکھنے کے لئے ٹریفک سگنل جب تک نہیں آئے تھے تو جنرل پوسٹ آفس، میاں میر چھائونی، بھاٹی گیٹ، دہلی دروازے اور کچھ اور مقامات پر رائونڈ ابائوٹ تھے ۔ سمن آباد میں تو آج بھی دو، تین گول چکر موجود ہیں۔ صدر بازار کے پاس آج بھی بہت بڑا گول چکر ہے۔ چوبرجی اور مزنگ چونگی، شادمان میں بھی کبھی رائونڈ ابائوٹ تھے۔ رائونڈ ابائوٹ اس لئے تعمیر کئے گئے کہ چاروں طرف سے ٹریفک رواں رہے اور کوئی حادثہ نہ ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹریفک سگنل لگنے کے بعد حادثات بڑھ گئے جبکہ رائونڈ ابائوٹ کی وجہ سے حادثات نہیں ہوتے تھے۔ قدیم لاہور میں تو تانگے، بیل گاڑیاں، ریڑھے اور گدھا گاڑیاں ہی چلا کرتی تھیں۔ رکشے تو 1960کے بعد لاہور میں آئےاورکالے اور پیلے رنگ کی ٹیکسیاں، گرے اور سفید رنگ کی بڑی ٹیکسیاں(جو صرف چڑیا گھر کے باہر کھڑی ہوتی تھیں) اور پرائیویٹ کاروں کا اڈا جو موری دروازے کے باہر اور نعمت کدہ سے پہلے تھا جہاں شیورلیٹ، اوپل، بیوک اور ڈاج گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں۔ لاہور میں زیادہ تر ٹیکسیاںمورس اور اوپل کی تھیں۔ اوپل گلابی اور سفید دو رنگوں میں آتی تھی یعنی دو رنگی کار یں تھیں۔ نعمت کدے کے چرغے کا پورے لاہور میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ لوہاری دروازے کے باہر پھلوں، پھولوں اور عینکوں کی دکانیں تھیں اور ساتھ ایک مینار والی مسجد مولانا محمد بخش مسلم کی۔ مولانا محمد بخش مسلم ہمارے جنگ فورم میں کئی مرتبہ آئے ۔ لال رنگ کی ترکی ٹوپی پہنتے تھے اور اس ٹوپی کا رنگ گہرا ہوکر برائون ہو چکا تھا مگر وہ اپنی ٹوپی نہیں چھوڑتے تھے ہم نے ان کے کئی انٹرویو بھی کئے ہیں۔

یہ وہ یادگار مسجد ہے جس میں 1977میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک میں پولیس جوتوں سمیت داخل ہوگئی تھی اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا تھا۔ اس پر پورے ملک کے اخبارات نے خبریں شائع کیں اور پولیس کے خلاف احتجاج ہوا۔یہ کیا خوبصورت شہر تھا کہ تیرہ دروازوں کے باہر نہر تھی جواب گندا نالہ بن چکی ہےوہ بھی صرف بھاٹی گیٹ کے پاس رہ گیا ہے، ان تیرہ دروازوں کے باہر باغات تھے جہاںمالش کرنے والے، پتنگوں کی ڈور کو مانجھا لگانے والے، فال والے اور کچھ جادو ٹونے والے بھی بیٹھا کرتے تھے،بچے ان باغات میں کھیلا کرتے تھے۔

ٹولنٹن مارکیٹ کا فرش سنگ مرمر یا کسی قیمتی پتھر کا نہیں بلکہ چوڑی لال اینٹ کا بنا ہوا ہے، اس کے برآمدوں اور چھت پر جو لکڑی کا کام ہوا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مارکیٹ کے چاروں طرف برآمدہ ہے جس کے اوپر لکڑی کی چھت ہے جو بڑی دیدہ زیب ہے۔ کسی زمانے میں اس مارکیٹ کی چھتوں اور برآمدوں پر لکڑی کے اوپر کوئی اور رنگ ہوا کرتاتھا۔ اب گرین رنگ کا پینٹ کیا ہوا ہے۔ ٹولنٹن مارکیٹ میں ایک بڑا ہال اور دولمبی لمبی گیلریاں بھی ہیں جو یقیناً اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ یہ عمارت گوروں نے واقعی صنعتی نمائش کے لئے بنائی تھی کیونکہ اس عمارت کو مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق نہیں بنایا گیا تھا۔ اس عمارت کو لاہور کا پہلا عجائب گھر بھی کہتے ہیں۔ یہاں گوروں نے نمائش کے دوران جو کہ( جنوری 1864 سے اپریل 1864تک جاری رہی) نو ا د ر ا ت ، عجا ئبا ت ، تاریخی اشیا مصوری کے قدیم نمونے، کرافٹ اور سرامکس کی مختلف اشیا اور اس دور کی بعض جدید چیزوں کو بھی رکھا تھا۔ اسی مناسبت سے اس سڑک کا نام بھی نمائش روڈ رکھ دیا گیا تھا۔ سرگنگا رام نے 1920میں اس عمارت کو مارکیٹ بنا دیا۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے قریب ہی سرشتہ تعلیم کا تاریخی عمارت میں دفتر ہے۔ یہ دفتر بھی 1860-70کے لگ بھگ کا ہے۔ اس کے اندر ایک اور تاریخی عمارت تھی جو کسی احمق ڈی پی آئی نے گرا دی۔ ظاہر ہے پرانی عمارت گرانے اور نئی عمارت کے بنانے میں جو کمائی ہوتی ہے وہ پرانی عمارت کی مرمت میں نہیں ہوتی۔

یہاں گوروں کے زمانے میں بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور تک ایک ہی ڈی پی آئی (ڈائریکٹر پبلک انسٹرکیشن اسکولز و کالجز) بیٹھا کرتا تھا۔ غالباً آخری مشترکہ ڈی پی آئی کمانڈر ظہور تھا۔ یہ بڑی تاریخی عمارت ہے اس کے بارے میں آئندہ بتائیں گے۔ پچھلے ہفتے ہم نے ٹولنٹن مارکیٹ کے حوالے سے این سی اے کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری سے فون پر بات کی، اب یہ عمارت این سی اے کے پاس ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری صاحب نے بتایا کہ وہ ٹولنٹن مارکیٹ میں کلچرل گارڈن بنا رہے ہیں جس میں سرامکس کی اشیا، مٹی کے قدیم برتن، کرافٹ کے نمونے، نوادرات رکھے جائیں گے۔ جہاں پر مرغی مارکیٹ تھی وہاں پر بڑا زبردست باغ ہوگا۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین