• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر کے مطابق ریاستِ مدینہ کا نام لینے والی عمران خان کی حکومت نے سود ختم کرنے کے کیس میں فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے یہ درخواست کی ہے کہ اس کیس کو نہ سنا جائے اور سود کے خاتمے کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سے پہلے عمران خان کی حکومت نے فیڈرل شریعت کورٹ کا یہ کیس سننے کا دائرہ کار چیلنج کیا تھا۔ یعنی حکومت نہیں چاہتی کہ سودی نظام کا خاتمہ ہو، یعنی حکومت نہیں چاہتی کہ فیڈرل شریعت کورٹ اس کیس کا فیصلہ کرے۔ فیڈرل شریعت کورٹ پہلے ہی اس اہم ترین معاملے کو گزشتہ دو دہائیوں سے لٹکائے ہوئے ہے اور اب موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ عدالت اس معاملے کو سنے ہی نہ۔ شریعت کورٹ میں اس دوران کئی جج آئے، چلے گئے، چیف جسٹس آئے، ریٹائر ہو گئے لیکن یہ اہم ترین کیس لٹکتا ہی رہا باوجود اس کے کہ سود کی ممانعت کے بارے میں اسلام کے سخت ترین احکامات موجود ہیں اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر گلہ نواز شریف سے ہے کہ اُنہوں نے 1992میں شریعت کورٹ کے سود کے فوری خاتمہ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اُسے چیلنج کر کے بڑا گناہ کیا تو یہی گناہ جنرل مشرف نے کیا اور اس فیصلے پر عمل درآمد کی بجائے سپریم کورٹ کے ذریعے اسے دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ کو2001-02 میں ریمانڈ کر دیا کہ دوبارہ سے کیس سنا جائے۔ بجائے اس کے کہ شریعت کورٹ اس کیس کا فوری فیصلہ کرتی اُس نے اس کیس کو سننے کا ایسا طریقہ اپنایا کہ اٹھارہ انیس سال بیت گئے، کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا اور جو حالات لگ رہے ہیں اور جس انداز میں کیس چلایا گیا ہے، شاید اس کیس کے فیصلے میں بیس، تیس سال اور گزر جائیں باوجود اس کے کہ سود اور سودی نظام کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں پاکستانی اس گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی گزشتہ حکومتوں نے بھی اس کیس کا فیصلہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ سودی قرضوں کے اجراء کے فیصلے کیے۔ نواز شریف جب 2013میں الیکشن جیت کر وزیراعظم منتخب ہوئے تو اُن کے پاس موقع تھا کہ اپنے 1992کے فیصلے کے گناہ کا کفارہ ادا کرتے لیکن وہ اس دور میں لبرل اور پروگریسو بننے کے جنون میں کسی اور سمت نکل گئے۔ عمران خان نے تو ریاستِ مدینہ کو اپنا رول ماڈل قرار دے کر پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا اور آج بھی اُن کی کوئی تقریر ریاستِ مدینہ کے حوالہ کے بغیر پوری نہیں ہوتی لیکن عمل دیکھیں تو پھر وہ سود اور سودی نظام کا اُسی طرح تحفظ کر رہے ہیں جس طرح اس غیراسلامی نظامِ معیشت کا تحفظ نواز شریف نے کیا تھا۔ عمران خان نے غریب اور متوسط طبقہ کے لئے بینک سے سودی قرضہ لے گھر بنانے کی اسکیم شروع کی جو پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کو اس گناہ کی دلدل میں مزید دھنسانے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے اسلام کو پڑھا اور اُس کا بار بار ذکر بھی کرتے ہیں لیکن اگر اس کے باوجود وہ سود کے گناہ کی شدت کو نہیں سمجھ سکے تو مجھے اس پر بڑی حیرانی ہے۔

مجھے ویسے حکومت کی طرف سے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے تیار کئے گئے مجوزہ قانون Pakistan Media Development Authority Ordinance 2021 کو پڑھ کر بھی تعجب ہوا کہ اس قانون میں اگر اس بات کا ذکر ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف، افواج اور عدلیہ کے ممبران اور ریاست کے سربراہ وغیرہ کے متعلق کوئی نازیبا بات لکھی یا بولی نہیں جا سکتی تو اس قانون میں اسلام کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 19میں سب سے پہلے آزادیٔ رائے کو اسلام کے خلاف بات نہ کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا میں نہ صرف بہت زیادہ اسلام مخالف مواد ملتا ہے بلکہ اسلامی احکامات اور اسلامی شعائر کا بھی مذاق اُڑایا جاتا ہے جس کی آئینِ پاکستان اجازت نہیں دیتا۔ میرا وزیراعظم سے سوال ہے کہ اگر یہی کچھ کرنا ہے تو اپنی تقریروں میں اسلام اور ریاستِ مدینہ کا نام کیوں لیتے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین