اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیار ولی نے وفاقی حکومت کے ٹیکس وصولی کے ہدف کو خام خیالی قرار دیدیا۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بجٹ 2021-22 پر تبصرہ کرتے ہوئے اسفندیار ولی نے اسے الفاظ کے ہیر پھیر سے تعبیر کیا۔
انہوں نے کہاکہ حکومت نے عوام کو الفاظ کے ہیر پھیر سے دھوکا دینے کی کوشش کی ہے، ٹیکس وصولی کا ہدف 8 ہزار829 ارب روپے مقرر کیا گیا جو خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
اے این پی سربراہ نے مزید کہاکہ ملکی تاریخ میں زیادہ قرضہ پی ٹی آئی حکومت نے لیا، میں پوچھتا ہوں قرضوں میں ڈوبے ملک کا بجٹ کس طرح عوام کو ریلیف دے گا؟
اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ایماء پر تیار کردہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔
اسفندیار ولی نے یہ بھی استفسار کیا کہ درآمدات سے مہنگائی کا رونا رونے والے بتائیں، کیا غذائی اشیاء بھی درآمد کی جارہی ہیں؟
انہوں نے کہاکہ ضم اضلاع سے کیا گیا وعدہ اس بار بھی پورا نہیں ہوا، 54 ارب روپے مختص کرنا ایک مذاق ہے۔
اے این پی سربراہ کا کہنا تھاکہ این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد ضم اضلاع کا حصہ بھی نہیں دیا گیا، پچھلے سال جو رقم مختص کی گئی تھی وہ بھی خرچ نہیں کی گئی۔
اُن کا کہنا تھاکہ این ایف سی ایوارڈ جاری کرنے کی بجائے بجٹ میں رقم مختص کرنا غیر آئینی ہے، اس بجٹ میں صوبوں کا حصہ مزید کم کردیا گیا۔
اسفندیار ولی نے کہا کہ پی ٹی آئی والے بھول گئے کہ بجٹ پیش کرنے والا غیرمنتخب شخص نیب کو مطلوب ہے، کسی کو ریلیف ملے نہ ملے غیرمنتخب وزیرخزانہ شوکت ترین کو ریلیف مل گیا ہے۔