گزشتہ ہفتے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں یہ انکشاف کیا گیاکہ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس گزشتہ ماہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل فیض حمید سے ملاقاتیں کیں جن میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں امریکہ کو پاکستان میں فضائی اڈہ دینے کی درخواست کی گئی۔ آرٹیکل میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اگرچہ پاکستان، امریکہ کو فضائی اڈے دینے پر آمادہ ہے تاہم پاکستان نے اس کیلئے امریکہ کے سامنے سخت شرائط رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کا موقف ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد خدشہ ہے کہ افغانستان میں القاعدہ، داعش اور دیگر دہشت گرد گروپ دوبارہ سرگرم نہ ہوجائیں اور امریکہ کی سلامتی کیلئے خطرہ ثابت نہ ہوں۔اسی سلسلے کی ایک پیشرفت میں گزشتہ ماہ جنیوا میں پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کی امریکی ہم منصب جیک سولیول کے ساتھ ملاقات ہوئی جس کے بعد امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ کو پاکستان میں فضائی اڈے درکار ہیں اور امریکہ کی حکومت پاکستان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے حوصلہ افزا بات چیت جاری ہے تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں اس بات کی تردید کی کہ امریکہ کو پاکستان میں کوئی فضائی اڈہ دیا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے فضائی اور زمینی مدد کی ضرورت تھی اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001ء میں ہونے والے ایئر لائن آف کمیونی کیشن (ALOC) اور گرائونڈ لائن آف کمیونی کیشن (GLOC) کے معاہدے ہوئے تھے جس کی رو سے امریکہ کو پاکستان میں اپنے ایئر بیس قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔امریکہ ماضی میں بلوچستان میں خضدار کے نزدیک واشک کے علاقے میں قائم شمسی ایئر بیس اور سندھ کے علاقے جیکب آباد میں واقع شہباز ایئر بیس کو استعمال کرتا رہا ہے۔ ان دونوں ہوائی اڈوں سے امریکہ کے طیارے اڑا کرتے تھے جبکہ شمسی ایئر بیس کو امریکی ڈرون حملوں کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ 2011ء کے وسط میں شہباز ایئر بیس کو بند کردیا گیا جبکہ شمسی ایئر بیس سے نومبر 2011ء میں مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد امریکہ پر پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔
امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ لالچ اور دبائو استعمال کرکے پاکستان کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ ALOC اور GLOC معاہدے کے تحت امریکہ سے تعاون کا پابند ہے کیونکہ آج امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے بعد ایک بار پھر یہ فضائی اڈے درکار ہیں اور امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑی جائے اور امریکہ، افغانستان سے نکل کر پاکستان میں بیٹھ کر اس علاقے میں اپنی اجارہ داری قائم رکھے اور اپنے ہتھیار استعمال کرے۔ طالبان صاف لفظوں میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ کوئی ہمسایہ ملک امریکہ کو فضائی اڈے فراہم نہ کرے اور اگر ایسا کیا گیا تو وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور ایران بھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ امریکی سی آئی اے علاقے میں بیٹھ کر ان کی جاسوسی کرے۔ پاکستان اور چین دیرینہ دوست ہیں جن کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب عالمی سطح پر امریکہ، چین کی کھل کر مخالفت کررہا ہے، پاکستان اپنے انتہائی قریبی دوست کی خواہش کے برخلاف امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
یہ بات یقینی ہے کہ سی آئی اے کو علاقے میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کیلئے اڈے درکار ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں سیکورٹی کی آڑ میں چین اور ایران کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھ سکے۔پاکستان کے علاوہ امریکہ نے وسط ایشیا کی سابقہ روسی ریاستوں کو فضائی اڈوں کے حصول کیلئے انگیج کر رکھا ہے مگر روسی مخالفت کی وجہ سے امریکہ کو یہاں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔امریکہ پاکستان میں ایئر بیس اور فضائی اڈوں کے حصول کیلئے کتنا بے تاب (Desperate) ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں مسلسل اعلیٰ سطح پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی وزیر خارجہ، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے، امریکی سلامتی کے مشیر جیک سوولین، پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف سے جبکہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور سی آئی اے چیف ولیم برنس ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم ماضی کے تلخ تجربوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جارہی ہے کہ پرویز مشرف نے 2001میں امریکہ کو فضائی اڈے دینے کی جو غلطی کی تھی، عمران خان وہ غلطی دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)