• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک ضروری میٹنگ میں تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی، گھر سے فون تھا۔ میں نے معذرت کی اور میٹنگ روم سے باہر آکر فون آن کیا،فون پربیگم تھیں۔ بتانے لگیں گھر کے قریب والے قبرستان کی ایک قبر میں سے مردہ اچانک زندہ ہوگیا ہے ۔ میں بوکھلا گیا اور تفصیل پوچھی۔بیگم نے فوری طور پر فون ملازمہ کو پکڑا دیا جس کے ذریعے یہ بریکنگ نیوز گھر تک پہنچی تھی۔ ملازمہ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولی ’’صاحب جی قبرستان میں سے کچھ لوگ گزر رہے تھے کہ انہیں اچانک ایک قبر سے چیخنے کی آواز آئی، وہ گھبرا کر قریب گئے تو اندر سے مردے کے چلانے کی آواز آرہی تھی کہ مجھے باہر نکالو۔ لوگوں نے فوری طور پرپولیس کو اطلاع دی، پولیس ایک گھنٹے بعد پہنچی،گورکن کو بلا کر قبر کھودی گئی تو مُردہ باہر نکل آیا ۔ میں نے پوچھا’’اب وہ مردہ کہاں ہے؟‘‘ جواب ملا ’’نہاد ھو کر ساتھ والے ہوٹل میں چائے پی رہا ہے‘‘۔

پہلے تو دل چاہا کہ فون میں سے نکل کر ملازمہ کو مردے والی قبر میں دفن کر آئوں، پھر خو د پر قابو پایا او ر دانت پیستے ہوئے کہا’’اتنی شدید گرمی اور حبس میں تو پنکھے کے نیچے بھی نہیں سانس لیا جارہا،یہ کیسا ٹرمینیٹرمردہ تھا جسے سخت گرمی کے موسم میں بھی ایک گھنٹے تک قبر کی منوں مٹی تلے آکسیجن ملتی رہی؟ ‘‘ملازمہ گھبرائی ہوئی آواز میں بولی’’مجھے کیا پتا صاحب جی! آپ آکے خود دیکھ لیںقبرستان میں کافی لوگ جمع ہیں‘‘ ۔میں نے فون بند کیا اور ادھر اُدھر سے معلومات اکٹھی کیں تو پتا چلا کہ کوئی پیر بابا جادو ٹونے کے لئے قبر کھود رہا تھا جسے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔دنیامیں جتنی لمبی ہمارے ہاں چھوڑ ی جاتی ہیں شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں چھوڑی جاتی ہوں۔میرے ایک دوست اپنی اسی صلاحیت کی بناپر ’’چھوڑُو‘‘ مشہورہوچکے ہیں۔ لمبی لمبی چھوڑنے والے یہ طے کئےبیٹھے ہوتے ہیں کہ ہر جھوٹ کو ہزار سے ضرب دینی ہے۔ان کو کہیں سے تھوڑی سی بھی سن گن مل جائے تو باقی کی کہانی یہ خود تخلیق کر لیتے ہیں۔ایک صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون نے اپنے گھر کے صحن میں ساڑھے پچپن ارب ‘ سات کروڑ تین سو پچاس ڈالر دبا رکھے ہیں۔

میں نے حیرت سے پوچھا ’’آپ کو ان کا اکائونٹ بیلنس کیسے معلوم ہوا؟‘‘

منہ بنا کر بولے’’اکائونٹ بیلنس نہیں بھائی‘ گھڑے میں دبائے گئے پیسے بتا رہا ہوں‘‘۔

میں نے کنپٹی کھجائی’’گھڑے میں کیوں؟ کیا اُن کا بینک اکائونٹ نہیں؟‘‘

یہ سنتے ہی موصوف نے طنزیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اورمیرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بولے’’جناب جو دولت انکم ٹیکس سے چھپانی ہو اسے بینک میں نہیں گھر میں رکھا جاتاہے‘‘۔ میں نے سرہلایا اور پوچھا’’مان لیا‘ لیکن آ پ کو کیسے پتا ہے کہ رقم گھر کے صحن میں ہے، گھڑے میں ہے اور ساڑے پچپن ارب، سات کروڑتین سو پچاس ڈالر ہے‘‘۔ ان کی آنکھوں میں شفقت کے آثار ابھر آئے ، دھیرے سے مسکرا کر بولے’’ بھائی جی میں نے اپنے ذرائع سے ساری معلومات حاصل کی ہیں‘‘۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر پوچھا’’وہ پراپرٹی ٹائیکون رہتا کہاں ہے؟‘‘۔ بوکھلا کر بولے’’کسی ایک جگہ تھوڑی رہتا ہے، کبھی کراچی، کبھی لاہور، کبھی دبئی، کبھی اسلام آباد‘‘۔ میں چونکا’’ ’’تو یہ ساری دولت کس گھر میں دبائی گئی ہے؟‘‘۔ یہ سنتے ہی انہوں نے غصیلی نظروں سے میری طرف دیکھا اور غرائے’’ محترم !معلومات کا قیمہ بنانے کی بجائے آگے شیئر کرنی چاہئیں‘‘۔اسی طرح کے چھوڑو ہمارے ایک دوست رفیق صاحب بھی ہیں، ان کے متعلق مشہور ہے کہ یہ خود کشی اسپیشلسٹ ہیں، ہر چھوٹی چھوٹی بات پر خود کشی کرنےپر تُل جاتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک موصوف ڈیڑھ دو سودفعہ خود کشی کی کوشش کر چکے ہیں۔ میں نے پوچھا’’کبھی کامیابی بھی ہوئی؟‘‘ بلاسوچے سمجھے بے نیازی سے بولے’’ہاں دو تین دفعہ بھرپور کامیابی ہوئی تھی۔‘‘

اُچیاں اور لمیاں چھوڑنے والے وہ لوگ ہیں جنہیں کسی بھی سنی سنائی بات پر 200فیصد یقین آ جاتا ہے۔ ان کے پاس اپنی کوئی خبر نہیں ہوتی‘ بس جو خبر ان تک پہنچتی ہے اس میں اپنالمبا چوڑا حصہ ملا کر آگے پھیلا دیتے ہیں۔ یہ اچانک کوئی ایسی بات کرتے ہیں کہ ساری محفل سکتے میںآجاتی ہے۔لیکن یہ معاملہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتا‘ تھوڑے ہی عرصے میں لوگوں کو پتا چل جاتاہے کہ موصوف ’’چھوڑو‘‘ ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک دفعہ جو واقعہ بیان کرتے ہیں ٹھیک دو دن بعد اگر ان سے وہی واقعہ دوبارہ سن لیا جائے تو اس کے تمام کردا ر و واقعات تبدیل ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ساری زندگی سچی بات بھی کریں تو کوئی یقین نہیں کرتا۔اعتماد ختم ہوجائے تو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینا پڑتا ہے۔ بقول اشفاق احمد، جھوٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اسے ہمیشہ یاد رکھنا پڑتاہے ۔

تازہ ترین