• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نشے کی لَت کا انسان کی اپنی زندگی کا دِیا بجھا دیتی ہے، وہ خود تو موت کی وادی میں اتر جاتا اور اپنے بیوی بچوں ماں باپ سمیت پورے خاندان کو زندگی بھر کی حسرت و یاس میں مبتلا کرجاتا ہے۔ تاہم معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح شراب بھی طبقات میں تقسیم نظر آتی ہے، ایک وہ شراب ہے جوکہ امراء اور اعلی طبقے کا شوق بتائی جاتی ہے، اس میں ملکی اور غیر ملکی شراب شامل ہے۔ اس کی فی بوتل کی قیمت سن کر عام شرابی کے ہوش اڑجاتے ہیں یا پھر ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں ، جب کہ اس کے مقابلے میں غریب اور متوسط طبقے کے شرابیوں کی نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے کچی شراب جسے عرف عام میں ٹھرا کہا جاتا ہے، اس کااستعمال عام ہے۔ 

’’ٹھرا شراب‘‘ کی تیاری میں ایسے مرکبات اور اشیاء استمال ہوتی ہے کہ جو نہ صرف انسانی جسم کے لیے زہر قاتل، بلکہ موت کا پروانہ ثابت ہوتی ہے اور اکثر کچی شراب بنانے والے اس کی بناوٹ جس میں ان کا نقطہ نظر شرابیوں کو بھرپور نشہ دلانا مقصود ہوتا ہے۔ کچی شراب سے ہونے والی ہلاکتیں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں، کچی شراب کی تیاری میں گڑ ،انگور ،کیمیکل اور ببول کے درخت کی چھال کے علاوہ نشہ آور گولیاں، جن کی بڑی مقدار انسانی جسم پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں اور اکثر اس کے استمال سے پینے والے موت کی وادی میں اتر جاتے اور لواحقین کو زندگی بھر رونے کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔ اس بارے میں کچی شراب کی تیاری جن مراحل سے گزرتی ہے، وہ بھی خالی از دل چسپی نہیں۔ 

اس شراب کی تیاری کے بعد اس کو دو آتشی کرنے کے لیے اس کے ڈرم زمین میں دفن کردیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ نشہ آور ہونے کے باعث اس کی اچھے داموں فروخت ممکن ہوسکے،یُوں تو کچی شراب کی بھٹھیاں جہاں واقع ہیں ، پولیس اس سے بے خبر نہیں، اور اڈوں پر چھاپہ مار کارروائی اس وقت عمل میں لائی جاتی ہے، جب اس میں پولیس کاحصہ یا بھتے میں کمی واقع ہو چکی ہو یا کردی جاتی ہو۔ 

اس بارے میں ڈی ایس پی سی آئی اے مبین احمد پرہیار نے بتایا کہ قاضی احمد شہر کے قریب ایک گاؤں میں کچی شراب بنانے کاکام عورتیں کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا پولیس نے اس گاؤں پر کئی مرتبہ چھاپہ مارا، لیکن ایک تو انہیں بروقت اطلاع ملنے پر مرد غائب اور عورتیں میدان میں آجاتیں، بلکہ یہ عورتیں پولیس کی راہ میں رکاوٹیں بھی بن جاتی ہیں۔ ڈی ایس پی مبین پرھیار کا کہنا تھا کہ اس گاؤں پر چند ماہ قبل جب چھاپہ مارا گیا، تو عورتیں میدان میں نکل آئیں۔ تاہم پولیس نے نے ایف آئی آر کے اندراج کے بعد یہاں سے شراب کی کئی بھٹھیاں قبضے میں لیں بلکہ ان کے غیر قانونی گھروں کو بھی مسمار کیا۔ 

تاہم پولیس کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کچی شراب کی ہلاکت خیزی کے باوجود اس کی روک تھام اس سطع پر نہ ہوسکی، جس کی یہ متقاضی تھی۔ اس سلسلے میں باخبر ذرائع کے مطابق سندھ میں کئی علاقے نہ صرف کچی شراب کی تیاری کے سلسلے میں بلکہ اس کی سندھ میں سپلائی کے سلسلے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ضلع دادو کے شہر سَن اس سلسلے میں بھی ان مقامات میں شامل ہے، جہاں اس ام الخبائث کی تیاری دھڑلے سے کی بتائی جاتی ہے، جب کہ ضلع شہید بے نظیر آباد میں قاضی احمد شہر،دولت پور ،سکرنڈ و نواب شاہ کے درمیان واقع دلیل دیرو کا قلعہ بھی اس محلول زہر کی تیاری اور سندھ میں کئی مقامات پر ترسیل میں بھی خاصی شہرت رکھتا ہے۔ 

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس نے یہاں کئی مرتبہ چھاپے بھی مارے، لیکن ایک تو پہلے سے اطاع ملنے سے منشیات فروش مال سمیت قلعہ کی زیر زمین سرنگوں میں غائب ہوجاتے ہیں اور پولیس نفری ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے، جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ چند سو روپیہ کی لاگت سےاس کچی شراب کے ایک ڈرم کی فروخت میں جب ہزاروں روپیہ حاصل ہوں اور حکمراں جماعت کی مبینہ طور پر چھتری بھی میسر ہو تو پھر کون سا امر ہے جو اس زہریلے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ بن سکے، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے بااثر کچی شراب بنانے والوں کے خلاف نیم دلانہ کارروائی بھی شکوک وشبہات پیدا کررہی ہے، تو دوسری جانب اس کی بھی شنید ہے کہ ووٹ کے لالچ میں اسی طرح جس طرح گٹکا ،زیڈ اکیس اور پان پراگ بیچنے والوں کے خلاف موثر کارروائی سامنے نہ آسکی اور ضلع شہید بے نظیر آباد میں جہاں سندھ کی حکومت ہے ۔ 

اس کے افسران کی تقرری اور تبادلہ بھی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر مبینہ طور پر کیا جاتاہے، رکاوٹ بتایا جاتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کچی شراب کے استمال سے گزشتہ کئی ماہ کے دوران درجنوں ہلاکتوں سے عوامی دباؤ بڑھتا جارہاہے اور سابق ایس ایس پی تنویر حسین تنیو ، جنہیں شکارپور میں ڈاکؤؤں کی بیخ کینی کے لیے تبادلہ کرکے بھیجا گیا ہے، نے اپنی تعیناتی کے دوران کچی شراب کی تیاری اور فروخت کی روک تھام کے لیے حتی المقدور کوششیں کیں، لیکن اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہ ہوسکا، جب کہ اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر تنیو کا کہنا تھا کہ جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزا میں پولیس کا شعبہ تفتیش بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کے اندراج سے لےکر عدالت میں چالان پیش کرنے تک پورے معاملہ کی بہتر طریقے سے تفتیش میں اگر کوئی بھی سقم رہ جائے، تو مجرم کا وکیل اس کا فائدہ اٹھا کرمجرم کو قانون کے پھندے سے چھڑانے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔

ادھر کچی شراب کے ساتھ اب تو برانڈڈ شراب کی نمبر دو کی تیاری کی بھی سندھ میں عروج پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کا طریقہ واردات یہ سامنے اس طرح آیا کہ حکومت سے منظور شدہ اقسام کی شراب کی بوتل میں دو نمبر شراب کی پیکنگ کرکے محلوں میں گھروں سے اس کی سپلائی پورا سال جاری رہتی ہے اور مارکیٹ روڈ پر شام کو کار ،موٹر سائیکل سواروں کا ہجوم اس ام الخبائث کی خریداری کے لیے موجود ہوتا ہے۔ 

اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری طارق مسعود آرائیں نے کچہری روڈ پر واقع شراب کی دوکان کو منتقل کرانے کے لیے مظاہرے کی قیادت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ گنجان آبادی میں واقع اس شراب کی دُکان سے ہندوؤں کے کوٹہ کی شراب نہ صرف مسلمان پی رہے ہیں، بلکہ اس شراب خانے کی وجہ سے ہمارے شہر کی نوجوان نسل شرابی بن رہی ہے۔

تاہم ان کے احتجاج سے فرق صرف یہ پڑا کہ یہاں سے چند قدم دور یہ شراب خانہ منتقل، جب کہ اس کے شب و روز سابقہ کی طرح برقرار ہیں۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہندو برادری کے تہواروں کے موقع کے علاوہ عید پر بھی شراب کی مانگ اور دام میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ تاہم شنید ہے کہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں بھاری رقم کی وصولی کے علاوہ ان وائین شاپ سے اعلی حکام اور حکمرانوں کے نور نظر مبینہ طور پر استفادہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ قبیع کاروبار جو کہ کچی شراب کا ہو یا دو نمبر شراب کا ہو جاری ہے۔

تاہم اس کی روک تھام کے لیے سول سوسائٹی اور مذہبی رہنما ہمیشہ سے آواز اٹھاتے رہے ہیں، جب کہ رابطہ کرنے پر ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد کیپٹن ریٹائرڈ امیر سعود مگسی نے بتایا کہ انہوں نے ڈی آئی جی پولیس عرفان بلوچ کی ہدایت پر بے نظیر آباد ضلع میں پولیس کو منشیات ،کچی شراب ، گٹکا مین پوری ،چرس ،افیون ، ہیروئن شیشہ سمیت تمام نشہ آور اشیاء کے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا اور گزشتہ روز جام صاحب سے پولیس نے گٹکا کے ہول سیل کے چار اسمگلروں کو گرفتار کیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ میں نے تعیناتی کے فوری بعد تمام مکاتب فکر کے علماء سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں خطبات جمعہ میں شراب ،چرس ،ہیروئن،شیشہ ،گٹکا کے استمال کو موضوع بنانے کی درخواست کی ہے تاکہ عوام خصوصی طور پر نوجوان نسل کو اس زہر سے جو کہ انہیں تباہ کررہا ہے، بچایا جاسکے تاہم یہ حقیقت ہے صرف پولیس ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو آگے بڑھ کر آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل کرکے ہم دنیا میں ترقی اور فلاح اخروی حاصل کرسکیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین