• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیلسن منڈیلا کو دیکھنے کی سعادت گوروں کے ایک ملک میں نصیب ہوئی، حالیہ تاریخ کے ایک عظیم شخص کی زیارت ۔ سیاہ فام نیلسن منڈیلا سامنے کھڑے تھے، نومبر1995 کی ایک شام، نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں۔ ایک عوامی استقبالیہ تھا، سفید فام شہریوں کی طرف سے سیاہ فام نیلسن منڈیلا کے لئے۔ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اسٹیج پر آئے تھے ،سادہ اور پُروقار اورقد آور۔ نسل پرستی کے خلاف ان کی طویل جدوجہد کے اعتراف میں اس دن یہاں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ مجمع بے قابو نہ تھا، پُرجوش مگر تھا۔ سب ہی کھڑے تھے اور اس عظیم ہستی کا خیر مقدم کر رہے تھے جسے جوانی کے سنہرے دن جیل میں گزارنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ہزاروں کے اس مجمع نے دس منٹ تک کھڑے ہو کر نیلسن منڈیلا کا خیر مقدم کیا۔ بر طانوی دولت مشترکہ میں شامل دوسرے ممالک کی حکومتوں کے سر براہ پاس کے ایک کوریڈور میں کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔کچھ شاید آئے ہی نہ ہوں، وہ اس طرح کا کوئی اعزاز نہیں رکھتے تھے ، ایسا کوئی عظیم کارنامہ ان کے نامہٴ اعمال میں کہاں تھا۔ پاکستان کے صدر فاروق لغاری بھی موجود تھے اور چند قدم کے فاصلے پر وہ آدمی تھا جسے اللہ نے عظمت بخشی ، اس کی جدوجہد کے صلہ میں۔ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر تھے۔آج کی تقریب دراصل انہی کے لئے تھی،انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، ان سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے۔ منڈیلا اس خراج تحسین اور عقیدت کے حقدار تھے بلکہ اس سے بہت زیادہ کے۔ انہوں نے نہ صرف سیاہ فام باشندوں کو صدیوں سے غصب ان کے جائز پیدائشی حقوق واپس دلوائے تھے بلکہ اپنی پوری زندگی اس مقصد کے حصول میں گزاردی کہ کسی گورے کوکسی کالے پر برتری حاصل نہیں ہے، سب انسان برابر ہیں۔ یوں تھا نہیں، تین صدیوں سے زیادہ عرصہ سے جنوبی افریقہ پر گوروں نے قبضہ کیا ہوا تھا،وہاں کے باشندوں کو غلام بنایا ہوا تھا۔ پہلے ولندیزی آئے پھر انگریز اور مقامی باشندوں کی زمینوں پر قابض ہو گئے، انہیں بے دخل کر دیا، بے دخل کیا کیا ان سے انسان کا درجہ بھی چھین لیا۔ وہ سیاہ فام ہیں ہم گورے ہیں اور ان سے برتر ہیں ۔یہ زعم گوروں کو،سفید فاموں کو کئی صدیوں رہا ہے، اب بھی ہے ۔جہاں بھی انہوں نے قبضہ کیا، مقامی آبادی کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فام باشندوں کو قابض گوروں کی زمینوں پہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا، ان کا معاوضہ بہت کم ہوتا ، کام بہت سخت۔ جب افریقہ کی زمین نے ہیرے اگلنے شروع کئے تو بھی سخت ترین کام ان سیاہ فاموں سے لیا جاتا اور ان کا معاوضہ گوروں سے بارہ گنا کم ہوتا۔ بیسویں صدی کے شروع میں جنوبی افریقہ نے برطانیہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ 1908ء میں ہونے والے ایک ” آئینی کنونشن“ میں پہلی بار سیاہ فاموں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ کس طرح؟کہ وہ ووٹ تو دے سکتے ہیں مگر کوئی عہدہ نہیں پاسکتے۔ دو برس بعد تو ان کے تمام سیاسی حقوق سلب کر لئے گئے اور چند سال بعد جب ان پر احسان کیا گیا تو اتنا کہ ملک کی اسّی فیصد افریقی آبادی کو سات اعشاریہ تین فیصد زمین دی جا سکتی ہے۔ سیاہ فام ان کے لئے انسان تھے ہی نہیں۔ اِن کا اُن تمام مقامات پر داخلہ ممنوع تھا جہاں سفید فام رہتے تھے اور بھی بہت سی پابندیاں تھیں۔
نیلسن منڈیلا ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،سیاہ فام جو تھے۔انہوں نے چھوٹے موٹے کام کئے پھر افریقہ کے اصل باشندوں کو آزادی دلانے کا مشن اختیار کیا۔ ابتدا میں وہ عدم تشدّد کے قائل تھے۔ پُرامن ذرائع سے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ حقوق اس طرح کب ملتے ہیں؟ انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا۔ 1960ء میں انہوں نے مسلّح جدوجہد شروع کردی ۔ ایک سال بعد انہیں گرفتار کر لیا گیااور پانچ سال کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ دو سال بعد ایک بار پھر ان پر مقدمہ چلا اور انہیں عمر قید کی سزا دی گئی اور ایک بدنامِ زمانہ جیل میں بند کر دیا گیا، جہاں انہیں ٹی بی ہوگئی تاہم جیل میں انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی۔اس دوران یہ بھی ہوا کہ جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت نے انہیں جیل سے فرار کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ اس دوران انہیں گولی مار کر ہلاک کردیا جائے۔ یہ سازش ناکام ہو گئی۔ فروری 1990ء میں جب وہ جیل سے رہا ہوئے27سال بعد، تو ان کی جوانی گزر چکی تھی، سر میں چاندی اتر آئی تھی، بھرے بھرے گال کچھ پچک گئے تھے۔ نیلسن منڈیلا77 برس کے ہو گئے تھے۔ اس عرصہ میں ان کا جنوبی افریقہ کے عوام سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ جو نسل اس دوران جوان ہوئی اس نے نیلسن منڈیلا کو دیکھا تھا نہ سنا۔ وہ 1964ء سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے مگر جب وہ جیل سے باہر آئے تو ایک اژدھام تھا کہ ٹوٹا پڑتا تھا،محاورتاً نہیں، عملاً۔ جب وہ تقریر کے لئے گرانڈ پریڈ گراؤنڈ کی طرف جا رہے تھے تو لوگ ان کی گاڑی پر چڑھ گئے،ہجوم نے انہیں گھیر لیا تھا۔ انہوں نے لکھا ”لگتا تھا لوگ ہمیں مار دیں گے اپنی محبت سے“۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ وہ راستہ بدل کر اپنے وکیل دوست عمر ڈلا کے گھر چلے گئے، جو ظاہر ہے انہیں دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے کہنے پر بالآخر وہ لوگوں کے سامنے آئے اور اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کی کوشش کی مگر ان کے پڑھنے کا چشمہ تو جیل میں رہ گیا تھا۔ ان کی بیوی وِنّی نے ان کی مدد کی اور اپنا چشمہ انہیں دیا اور تیس منٹ تک ، سفید فام اکثریت والے کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے باشندوں نے اپنے نجات دہندہ کو سنا۔ ربع صدی کا وہ عرصہ جب منڈیلا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں رہا تھا،پلک جھپکتے میں ختم ہو گیا۔ان کا قائد ان کے درمیان تھا، ان سے مخاطب تھا۔
جنوبی افریقہ کے باشندوں پر جو ظلم گوروں نے توڑے تھے،اس کے بعد کیا ہونا چاہئے تھا؟ہونا تو وہی چاہئے تھا جو ہوتا ہے۔ بے گناہوں کے خون کا بدلا لینا چاہئے تھا، اپنی زمین ناجائز قابضوں سے واپس لینی چاہئے تھی مگر منڈیلا ایک اور درجے پر فائز ہو چکے تھے۔ ”میں پیغمبر نہیں، آپ کا ایک حقیر خادم ہوں“ انہوں نے کہا۔ جب 1994ء میں وہ پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے انتقام نہیں لیا، معاف بھی نہیں کیا کہ ظلم کا حساب تو ہونا ہی چاہئے۔ نیلسن منڈیلا نے اعلان کیا،جس نے ظلم کئے ہیں وہ آئے، اعتراف کرے، سچ بولے۔ سچائی اور مفاہمتی کمیشن نے دو برس تک ہزاروں لوگوں کو سنا، ان میں اکثریت ظاہر ہے سیاہ فاموں کی تھی۔ انہوں نے خود پر توڑے گئے مظالم کی روح فرسا داستانیں سنائیں ۔ظلم کرنے والوں نے اعتراف بھی کئے۔ یوں مصالحت اور درگزر کے فلسفے کے ساتھ جنوبی افریقہ کی نئی زندگی شروع ہوئی، گوروں کے ظلم سے آزاد زندگی، نیلسن منڈیلا کا سب سے بڑا اعزاز یہی ہے۔ اسی کا اعتراف تھا جب وہ سامنے کھڑے تھے، آکلینڈ میں۔ اب ان کا ملک آزاد ہے، وہاں جمہوریت ہے، مختلف نسلی گروہ ساتھ رہتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا کے سکھائے ہوئے سبق پر عمل بھی کرتے ہیں۔ حالات وہاں بہتر ہیں اور نیلسن منڈیلا94 سال کی عمر میں اپنے آخری سفر کی تیاری کر رہے ہیں۔ جسم فانی ہے، عظمت ان کی برقرار رہے گی،رہتی دنیا تک رہنمائی کرتی رہے گی۔
تازہ ترین