کراچی(ٹی وی رپورٹ)اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ارکان کی معطلی سے قبل وزیر اعظم کے علاوہ شہباز شریف اور بلاول سے بھی مشاورت کی تھی،ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ترمیم ایسی ہے جس پر دونوں سائیڈ متفق ہوسکتے ہیں وہ ترمیم کریں گے یہ نہیں ہوگا کہ تمام مختلف بلز کو واپس دیاجائے گا بلکہ اس کے قانونی پروسیجرپر ڈیسکس کیا جائے گا۔
کافی بل ایسے ہیں جس پر انڈرسٹنڈنگ بھی ہوسکتی ہے اور ترمیم ہو بھی سکتی ہے ہم چاہتے ہیں اپوزیشن پورا ان پٹ دے اور میں خود اس کو دیکھوں گا۔جو پراپر پروسیجر ہے اس پر حتمی بات نہیں کرسکتا میری رائے ہے ہماری بات یہ ہوئی تھی کہ ہم دیکھ لیں گے کہ کیا قانونی طریقہ ہوسکتا ہے، چونکہ سینٹ کی پراپرٹی بن گئی ہے پھرہم سینٹ کو اینگیج کریں گے۔
اس کے ساتھ بات کریں گے یا مشترکہ کمیٹی بنائیں گے اور ٹی او آر یہ کمیٹی خود بنائے گی اور میری حکومتی نمائندوں سے بھی بات ہوئی ہے اور میری خواہش ہے کہ آئندہ بھی جو بل آئیں وہ اپنے بل اپوزیشن کے ساتھ شیئر کریں ٹیبل کرنے سے پہلے، کوشش کر رہے ہیں قانون سازی میں گورنمنٹ اور اپوزیشن کی برابری سے ان پٹ آجائے۔
ایک ٹریڈیشن ہے قانون نہیں ہے کہ دو دن کے لئے پڑھنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ ہم صرف یہ چاہ رہے ہیں کیوں کہ یہ قانون سازی کا معاملہ ہے اس پر بات چیت ہونی چاہئے۔
بل کافی پرانے پڑے ہوئے تھے کوئی ایک سال سے کوئی چھ مہینے سے پڑے تھے، اس پر کافی بات ہوتی رہی ہے اور پانچ چھ بل ایسے ہیں جو سو فیصد اتفاق رائے کے ساتھ ہیں یہ بات کہنا نامناسب ہے کہ غیرقانونی کام ہوا ہے۔ اسمبلی کی پروسیڈنگ قانون کے مطابق ہوئی ہے۔
ارکان کی معطلی کا جب میں فیصلہ کررہا تھا تو تین لیڈرز کو اعتماد میں لیا تھا وزیراعظم عمران خان سے شہباز شریف اور بلاول سے بات کی تھی اور تینوں سے میں نے کہا کہ میں یہ اقدامات کرنے جارہا ہے جن لوگوں نے جھگڑا شروع کیا تھا میں نے کچھ خود دیکھا تھا اور کچھ سنا تھا جو خود دیکھا تھا ا س کے خلاف براہ راست ایکشن لیا۔
اجلاس سے جب آفس میں آیا اس کے بعد جو ہوا وہ ویڈیو میں نے دیکھی وہ لوگ تقریباً ساٹھ ستر بن رہے تھے اس کے لئے پروسیجر بنایا کہ جو دونوں سائیڈ سے تھے۔ اور میں نے قانون کے مطابق اس پر ایکشن لینا تھا۔
اپوزیشن نے کہا آپ یہ تب کریں جب کمیٹی بنے اور وہ کمیٹی بتائے کہ کون کون ایسے ممبران ہیں جن کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے کمیٹی پر میں متفق ہوا اور میں نے کہا کہ جو آپ مناسب سمجھتے ہیں رانا تنویر نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا اپوزیشن چاہتی ہے کس کیخلاف ایکشن ہو یہ کمیٹی فیصلہ کرے۔
میں نے شہباز شریف، بلاول اور عمران خان سے بات کی عمران خان نے کہا کہ اچھا کس کے خلاف ایکشن نہ لیں ایکشن کی وجہ کیا ہے مجھے شہباز شریف نے بھی کہا کہ کون کون ہے اور بلاول نے بھی یہ سوال پوچھا پھر جوائنٹ اپوزیشن کی میٹنگ ہوئی اس وقت میں نوٹیفکیشن نکال چکا تھا۔ رانا تنویر نے مجھ سے دو ڈیمانڈ کیں کہ جو نوٹیفکیشن آپ نے کئے ہیں وہ واپس لے لیں میں نے کہا اب واپس نہیں ہوسکتے۔