موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے۔ موسیقی کا رقص کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ پرانے زمانے میں بادشاہوں، راجا مہاراجوں کے دربارمیں جب ناچ گانے کی محفلیں ہوتی تھیں، تو اس زمانے میں نہ تو کوئی مائیک یا اسپیکر ہوتا تھا،بلکہ گائیک کو اپنی آواز سازوں کی آواز سے ملا کے اتنی بلند ؒرکھنی ہوتی تھی کہ قابل سماعت ہو۔ پھر اس زمانے کے در و دیوار کی تعمیر و ساخت کچھ اس طرح ہوتی تھی کہ آواز ان سے ٹکرائے تو گونج پیدا کرے۔ بڑے بڑے گائیک بادشاہ کےسامنے آواز کا جادو جگاتے اور انعام و اکرام سے نوازے جاتے۔ گانے بجانے والوں کو فکر معاش تنگ نہیں کرتی تھی، ان کا مکمل دھیان صرف اپنے فن پر ہی ہوتا تھا۔ اس لیے قدیم زمانے میں موسیقی کا وہ عالم تھا کہ نئے نئے راگ ایجاد ہوئے، بے مثال بندشیں اور ٹھمریاں بنیں، جو آج بھی مقبول ہیں۔
اکثر فلموں میں دیکھا ہوگا۔ ہیرو یا ولن رقص دیکھنے جاتا ہے، رقاصہ رقص بھی کرتی ہے، گانا بھی گاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ثقافت ہے، جسے معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا، صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور آج بھی اسے بُرا ہی سمجھا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تلخ حقیقت کے باوجود فلموں میں مجرا بہت مقبول ہے، کچھ فلمیں تو بنیں ہی کوٹھے اور مجرے پر ہیں، جسے امراء جان، پاکیزہ، منڈی، وغیرہ جب کہ بعض فلمیں ایسی ہیں، جن میں ہیروئن کے مساوی کردار طوائف کا ہوتا ہے۔ ان میں مقدر کا سکندر، سہاگ، طوائف، داسی، دیدار یار اور دیگر فلمیں شامل ہیں، امراء جان، ایسی فلم ہے، جو بھارت اور پاکستان دونوں جگہ بنی ہے اور بہت کام یاب رہی۔
پاکستان میں ’’امراء جان ادا‘‘ حسن طارق مرحوم نے بنائی تھی، جس میں رانی، شاہد، نیر سلطانہ، طالش، رنگیلا نے یادگار کردار ادا کیے۔ اس فلم کے گانے رونا لیلیٰ اور ملکہ ترنم نور جہاں نے گائے اور آج بھی انہیں پسند کیا جاتا ہے۔ دوسری امراء جان میں سابق ملکہ ایشوریا رائے، شبانہ اعظمی اور ابھیشک بچن نے اداکار کی ۔ ریکھا والی ’’امراء جان‘‘ ہر لحاظ سے بہتر تصور کی جاتی ہے۔ ریکھا کی اداکاری، جلوے، ملبوسات وغیرہ اپنی جگہ، لیکن فلم میں شامل غزلیں اور گیت نے کام یابی میں چار چاند لگائے تھے۔ تاہم یہ فلم گلیمر کے باوجود رانی والی پاکستانی امراء جان سے موازنہ میں تھوڑی پیچھے نظر آتی ہے۔ یہاں ہم پاکیزہ کا بھی ذِکر کریں گے، جو مینا کماری کی زندگی کی آخری فلم تھی اور جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس نے درمیانے درجے کا بزنس کیا تھا۔
مینا کماری کی اچانک موت نے فلم بینوں کے دل پہ گہرا اثر ڈالا اور لوگ پاکیزہ دیکھنے کے لیے دیوانے وار دوڑ پڑے۔ کچھ بھی ہو ’’پاکیزہ‘‘ ایک ایسی عمدہ کلاسیک فلم ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ کمال امروہوی نے اس فلم کے لیے اپنا پورا سرمایہ لگا دیا تھا، لتا منگیشکر کی آواز میں گائے پاکیزہ کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ دراصل امراء جان اور پاکیزہ میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ جس کردار کو دنیا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی، درحقیقت وہ شرافت، تہذیب، علمیت اور بلندی کا پیکر ہے۔
مثبت کردار، قربانی اور درد بھرا دل یہ ہمیں مقدر کا سکندر، پاکیزہ، امراء جان جیسی فلموں میں ملتا ہے۔ پاکستان میں ایک فلم دل نشین کے نام سے بنی تھی، جس میں شبنم اور ندیم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے، اس فلم کا بھی موضوع یہی تھا۔ ناچتی گاتی عورت کا روپ سماج کے لیے عموماً قابل قبول نہیں ہوتا، لیکن یہ شعور سب میں ضرور ہونا چاہیے کہ ہر رقص مجرا نہیں ہوتا۔ رقص اعضا کی شاعری ہے، آرٹ کی ایک قسم ہے، رقص کی بہت سے اقسام ہیں ہپ ہوپ، ٹینگو، راک اینڈ رول، ڈسکو، ٹوئسٹ، سمبا، کتھک، یہ سب رقص کی قسمیں ہیں۔
برائی کا پہلو ڈھونڈنا آسان ہے ، لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ وہ باریک تقسیم کردینے والی لکیر کہاں ہے، جو اچھائی کو برائی سے الگ کرتی ہے۔ اب لوک رقص کو تو سب پسند کرتے ہیں۔ بھنگڑا، خٹک، لڈی، جھومر لوک رقص کی اقسام ہیں اور لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔ رقص کلاسیکی ہو، مغربی ہو یا فوک ہو، ایک فن ہے۔ اس فن کو توقیر دینے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اب آئٹم نمبر بھی فلموں کی خاص ضرورت ہے۔
اس میں بھی پرفارمر کو ایسے لٹک مٹک جھٹک کر جلوے بکھیرنے ہوتے ہیں کہ تماش بین کلیجہ تھام کے رہ جائیں۔ موجودہ دور کے آئٹم نمبر یا بارش میں بھگی مچلتی ہیروئن کا موزانہ پاکیزہ اور امراء جان جیسی فلموں کی ہیروئن پہ فلمائے گانوں سے کیا جائے، تو محسوس ہوگا کہ رقص کا معاملہ کچھ عجیب سا ہی ہے۔
کئی برس قبل جب ٹیلی وژن پر ضیاء محی الدین کا پروگرام چلتا تھا۔ پائل میں ناہید صدیقی اپنے فن کتھک کا بھرپور مظاہرہ کرتی تھیں، جو عوام میں بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ اسے اس وقت کی حکومت نے اچانک بند کردیا اور ٹیلی ویژن پر خواتین کے رقص پیش کرنے پر پابندی لگ گئی۔ یہ پابندی ایسی عجیب و غریب پالیسی ہے، جو اچانک مسلط کردی جاتی ہے اور سب اس کے زیراثر آجاتے ہیں۔ پابندی کا عذاب بہت فنکاروں نے جھیلا، شیما کرمانی، ناہید صدیقی، نازیہ زوہیب، مہتاب اکبر راشدی، سمیت کئی فن کار ہیں، جو اسے بھگت چکے ہیں، مگر کمال کی بات یہ ہے کہ کسی کی مقبولیت پر پابندی نے کوئی اثر نہیں ڈالا۔ خیر چھوڑیں اس بات کو جیسی حکومت ویسی پالیسی، نئی حکومت نئی پالیسی اور پالیسی کا اطلاق سب سے پہلے ذرائع ابلاغ پر۔ فلموں میں گانے اور ان پر رقص کمرشل فلموں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
آرٹ فلمیں چوں کہ عموماً ان لوازمات سے عاری ہوتی ہیں، لہٰذا ان پر ہم بات نہیں کریں گے۔ فلموں میں کام کرنے والی ہیروئن کو رقص ضرور آنا چاہیے، ورنہ مشکل پیش آتی ہے۔ وحیدہ رحمان، وجنتی مالا، ہیلن، ہیما مالنی، مادھوری ڈکشٹ کی خاص بات جو انہیں دیگر ہیروئنز سے ممتاز کرتی تھی، وہ ان کا عمدہ رقص ہے۔ ریکھا، رینا رائے اور سری دیوی بھی رقص میں ماہر شمار کی جاتی ہیں۔
آج کل رقص کا انداز تبدیل ہوگیا ہے، تو سب کا کام چل جاتا ہے۔ پاکستانی فلموں میں ریما، نرگس اور دیدار کو بہترین ڈانسر مانا جاتا ہے۔ ماضی کی حسین اداکارہ رانی بھی اچھا ڈانس کرتی تھیں۔ اب فلموں میں رقص کا اسٹائل بدل گیا ہے۔ پنجابی فلموں کا رقص ویسے بھی اردو فلموں کے رقص سے مختلف ہوتا ہے۔ فلموں کے زوال اور دوبارہ بحال ہونے تک بیچ میں اسٹیج ڈراموں اور شوز میں خوب ڈانس ہوئے۔ معلوم نہیں اسے ڈانس کہنا بھی چاہیے یا نہیں۔
الحمرا میں سُنا ہے بہت سی خواتین کے ناچ پہ پابندی لگی، یہ پابندی ناچ پر نہیں بلکہ ناچ کے نام پہ ہونے والی حرکات کے باعث لگیں، یہی وہ مسئلہ ہے، جس کے باعث رقص جیسے فن کو بدنامی ملی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر فن رقص کو بے ہودگی سے پاک کرکے اس کو وہ مقام بخشا جائے، جو اس کا حق ہے۔ اعضا کی شاعری اگر وزن میں نہ ہو، ردیف، قافیہ اور قواعد سے آزاد ہوتو وہ شاعری نہیں تک بندی کہلاتی ہے ،جس کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح بے ہنگم اچھل کُود اور فحش حرکات و سکنات کا رقص سے کبھی کوئی واسطہ نہیں، جتنی مخالفت اس کی کی جائے کم ہے۔
ہم بھی ناہید صدیقی اور نگہت چوہدری کے رقص پسند کرتے ہیں۔ بچپن میں ہمیں مائیکل جیکسن کے بریک ڈانس کا کریز تھا۔ مغربی ممالک میں بیلے ڈانس بہت مقبول ہے اور اس کا ٹکٹ خاصا مہنگا ہوتا ہے۔ ہسپانوی رقص جو جوتوں کو ایک خاص انداز سے بجا کر ہوتا ہے، وہ بھی کمال ہے۔ ہمارے یہاں بلوچی لیوا ہو یا دھمال، فوک کا اپنا مزا ہے۔ رقص خوشی کا، انبساط کا نام ہے، فن کا ایک اعلیٰ درجہ ہے، می رقصم۔