مومنہ حنیف
وقت کو تھوڑا پیچھے دکھیلا جائے اور عقل ودانش کی عینک سے غور کیا جائے تو تاریخ میں ایک دو نہیں بہت سے نو جوانوں کی کامیابیوں کا ذکر ملتاہے۔ تاریخ کے ان اوراق میں فاتح سندھ محمد بن قاسم وہ بہادر، ذہین، جنگجو، کم عمر نوجوان تھے، جنہوں نے فقط 23سال کی عمر میں اپنی ذہانت وقابلیت اور کم عمری میں سندھ کو فتح سے ہمکنار کیا۔ جب وہ سندھ سے رخصت ہونے لگے تو وہاں کے ہر جوان ،بچے ،بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
طارق بن زیاد وہ بہادر نوجوان تھے، جنہوں نے اپنی طاقت وذہانت سے نہایت کم لوگوں کے ہمراہ بہت بڑی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ مظلوم وبے بس لوگوں کے لیے ظالموں سے نجات کا ذریعہ بنے۔ دنیا بھی آج بھی اس عظیم سپہ سالار کو فاتح اسپین کے نام سے یاد کرتی ہے، جس مذہب وقوم کے جوانوں کی تاریخ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنا وقار، عزت، مقام ومرتبہ، رعب ودبدبا رکھتی ہوں، تو پھر آج اُس قوم کی نوجوان نسل کامیابی کے حصول میں کیوں ناکام ہیں۔
کامیابی کبھی بھی جمود کا شکار رہنے سے حاصل نہیں ہوتی اور خوابوں کی تکمیل فقط سوچنے اور ارادوں سے تعبیر نہیں ہوتی۔ جب کسی اچھے کام کی ٹھان لیں تو کسی بھی مشکل کو آڑے آنے نہ دیں، بلکہ ترقی اور بہتری کے مواقع جہاں بھی نظر آئیں ان تک رسائی حاصل کرنے میں بھرپور محنت کریں۔ ایک دفعہ ایک بادشاہ نے بہت سارے عقلمند اور دانا لوگ اکٹھے کئے اور کہاکہ ’میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ ایک ایسا نصاب ترتیب دو جس سے میرے ملک کے نوجوانوں کو کامیابی کے اصولوں کا پتہ چلے، میں ہر نوجوان کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔‘ یہ دانا لوگ مہینوں سرجوڑ کر بیٹھے اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک مسودہ لکھ کر بادشاہ کے پاس لائے ،جس میں کامیابی کے لیے اصول وضوابط، حکمت ودانائی کی باتیں، کامیاب لوگوں کے تجربات وقصے ،آپ بیتیاں وجگ بیتیاں درج تھیں۔
بادشاہ نے مسودے کو دیکھتے ہی واپس کردیا اور کہاکہ ’یہ نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے، اسے مختصر کر و ۔ دانا لوگ ہزاروں صفحات سے مختصر کر کے سیکڑوں صفحات میں بناکر لائے اُسے بھی پڑھ کر بادشاہ نے واپس کردیا اور کہا، پھرو اسے مختصر کرکے بیسیوں صفحات بنا کر لائے تو بھی بادشاہ کا جواب انکار میں تھا۔
بادشاہ نے اپنی بات دہراتے ہوئے ان لوگوں سے کہا کہ ’تمہارے یہ قصے کہانیاں اور تحریریں نوجوانوں کو کامیابی کے اصول نہیں سکھا پائیں گی۔‘ آخر کار مہینوں کی محنت اور کوششوں سے مملکت کے دانا لوگ صرف ایک جملے میں کامیابی کے سارے اصول بیان کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ’جان لو کہ بغیر محنت کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوا کرتی۔‘
پس اس جملے کو کامیابی کا سنہری اصول قرار دے دیا گیا اور طے پایا کہ یہ اصول ہی ہمت اور جذبے کے ساتھ کسی کو کامیابی کے ساتھ منزل کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔ ناکامی سےپریشان لوگ تو آپ نے بہت دیکھے ہوں گے اور خود آپ کو بھی یقینا کبھی نہ کبھی ناکامی یا رَد کیے جانے کے خوف کا سامنا رہا ہوگا، لیکن کیایہ حیرت کی بات نہیں کہ ناکامی کے ساتھ ساتھ انسانوں کو’کامیابی کا خوف‘ بھی ہوتا ہے۔ یہ (کامیابی) کا خوف بظاہر شعوری طور پر اپنا احساس تو نہیں چھوڑتا، مگر غیر شعوری طور پر کچھ ایسی سوچوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جو آپ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔
اس خوف کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کامیابی ہر انسان کی زندگی میں تبدیلی لے کر آتی ہے ۔ ایک شخص پانچ سال ایک کمپنی میں کام کرتا ہے اور ان پانچ سالوں میں بھرپور محنت اور امانت داری سے کام کرنے کی بنا پر جب اسے ترقی دی جاتی ہے تو اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ اس کے چہرے سے پریشانی جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔
جب اسے کہا جاتا ہے ،بھائی تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہاری ترقی ہوئی ہے تو وہ کہتا ہے،اچھا بھلاکام کررہا تھا، اب سیکشن انچارج بنا دیا ، اپنا بھی خیال رکھنا پڑے گا اور دوسروں کا بھی۔ مجھے ایسی ترقی نہیں چاہیے‘‘۔ایسے ہی بیسیوں لوگ ہمارے اردگرد ہیں جو ’ارادے باندھتے ہیں، توڑ دیتے ہیں ‘ کتنے ہی در ان کے ذہن میں ہی کھل کر اس لیے بند ہوجاتے ہیں کہ وہ ذمہ داریں لینا نہیں چاہتے نوجوانوں میں صرف ناکامی کا خوف ہی مسئلہ نہیں بلکہ’ کامیابی کو قبول کرنا‘ بھی ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے، بلکہ بعض نوجوانوں میں’ کامیابی کا خوف‘ سرایت کرچکا ہے کہ فلاں عہدے پر ترقی کرنے کے باعث ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ یہ سوچ غلط ہے۔ نوجوان کو چاہیے کہ وہ کامیابی ملنے پر آنے والے مشکلات کا خوف بھی دل سے نکال دیں، تب ہی وہ اپنے مقاصد کو پاسکتے ہیں اور کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یاد رکھیں! خوف سے آگے کامیابی ہے۔