ماضی قریب کے حوالہ سے میرے لائل پور عرف فیصل آباد کے دو محسن ہیں جنہیں لائل پوریئے آج بھی عقیدت ملی محبت سے یاد کرتے ہیں۔ ایک صاحب ہیں نسیم صادق جنہیں میں نے کبھی دیکھا تک نہیں، دوسرا ہے نور . . . . نور الامین مینگل جس نے لائل پور کو نیا رنگ و روپ عطا کرنے کے بعد ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے طور پرپنجاب فوڈ اتھارٹی کو انوکھی شناخت دی۔ ایک طرف ملاوٹ کے خلاف مہم بلکہ جہاد اور ان معزز دہشت گردوں کو ایکسپوز کرنا جو عوام کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں تو دوسری طرف عوام کو آگہی اور شعور دینا۔ میں بھی خود کو خاصاباشعور سمجھتا تھا لیکن فوڈ اتھارٹی کے پے در پے چھاپوں نے مجھے ایجوکیٹ کیا کہ ’’اونچی دکان گنداپکوان‘‘ کسے کہتے ہیں۔ ایسے ایسے ہوٹل، ریستوران، فاسٹ فوڈ کے معروف مراکز ایکسپوز ہوئے کہ الامان الحفیظ۔ انہی دنوں میں نے ایک نیا محاورہ بھی ایجاد کیا’’کھانا جتنا لذیذ، اتنا ہی غلیظ‘‘۔ ساتھ ہی میں نے بچوں پر بھی بین لگا دیا کہ کھانے کے معاملہ میں ہوم ڈلیوری بند، اگر کوئی آئے گا تو گارڈز اسے کھڑے کھلوتے بھگا دیں گے۔ قارئین جانتے ہیں کہ برسوں سے ملاوٹ میرا بہت بڑا ایشو ہے اور یہ کام کرنے والوں کو میں نسلوں کا قاتل سمجھتا ہوں، سو میں نے خود ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی کا ’’سفیر‘‘ بننے کافیصلہ کرلیا جو کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کے بعد ادھر ادھر پھرتے پھراتے آج کل نور الامین سیکرٹری لوکل باڈیز کے طور پر اپنے مخصوص تخلیقی انداز میں مصروف ہے۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کےاس انتخاب نے میونسپل سروسز کی یقینی فراہمی کے لئے 136 تحصیل کونسلز کو18ارب روپے کے فنڈز جاری کر دیئے ہیںتاکہ صوبہ بھر میں مقامی سطح پر تعمیر و ترقی کا کام زور و شور سے شروع ہو سکے۔ کمرشلائزیشن، زوننگ، ٹرانسپورٹیشن پلاننگ اور سٹی بائونڈری کے لئے ابتدائی سطح پر 367 ملین کی لاگت سے 119 شہروں کی ماسٹر پلاننگ کا آغاز بھی قریب ہے۔یہ اخباری خبر کسی خوشخبری سے کم نہ تھی کہ پنجاب میں مویشی منڈیوں کی نیلامی تاریخی قیمتوں پر ہوئی ہے۔ جو کام گزشتہ سال ایک ارب 45 کروڑ 26لاکھ میں لٹا دیا گیا تھااس سے چار ارب 5کروڑ 82 لاکھ 35 ہزار کا ریونیو موصول ہو اہے۔ ماضی میں لاہور کی سب سے بڑی منڈی سے 33 کروڑ روپے کا ریونیو آ رہا تھا جو اب نیلامی کے بعد 80کروڑ ایک لاکھ تک پہنچ چکا۔ ’’پنجاب رورل سسٹین ایبل واٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن‘‘ ورلڈ بینک کے تعاون سے لانچ ہو چکا۔ منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ 86 ارب ہے۔ 119 شہروں کی ماسٹر پلاننگ علیحدہ، سمارٹ سٹی پراجیکٹ، مقامی سطح پر کھیلوں کے لئے بجٹ کا مختص کیا جانا، صوبہ بھر میں 10 ہزار سینیٹری ورکرز کی بھرتی، خواجہ سرائوں کے لئے بھی 2 فیصد کوٹہ جو اب سڑکوں پر گدا گری کے لئے مجبور ہیں۔ لاہور شہر کے مزید چار مقامات پر ماڈل قبرستانوں کا قیام جو بے حد ضروری تھا، شکایات سیل کا قیام اور اس کے ساتھ ساتھ احتساب بورڈ کی تشکیل وغیرہ وغیرہ . . . . اتنی لمبی فہرست ہے کہ میں لکھتے لکھتے اور آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے لیکن میرے لئے سب سے مسحور کن فیصلہ ہے صوبہ بھر میں تاریخی عمارتوں کی بحالی اور اہم شاہرائوں کی خوب صورتی . . . . اور دلکش لاہور، دلکش ملتان، دلکش بہاولپور اور دلکش لائل پور پراجیکٹ۔ شہر اور ادارے کسی بھی ملک کے اعضا ہوتے ہیں جنہیں صحت مند اور مضبوط ہونا چاہیے اور جیسے جسم کے تمام اعضا اہم ہوتے ہیں اسی طرح ہرشہر کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر کہ ملتان اور لاہور جیسے تاریخی شہر ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے لئے مفت مشورہ یہ ہے کہ اس لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پر فوکس کریں تو یہ سینکڑوں اوورہیڈز، انڈر پاسز اور اورنج ٹرینوں پر بھاری ہو کر خود وزیر اعلیٰ کوبھی ایک سیاسی ہیوی ویٹ میں تبدیل کرسکتا ہے اور نور الامین مینگل کے لئے میری دعا ہے کہ اللہ پاک اس ’’بلوچ بچے‘‘ کو اپنا امیج اور ریکارڈ قائم رکھنے کی ہمت، حوصلہ اور توفیق عطا فرمائے۔اور آخری بات یہ کہ اس ملک کا محرومیوں مارا، ڈلیوری اور توجہ کے لئے ترسا ہوا عام آدمی احسان فراموش ہرگز نہیں ہے کہ اگر عام لیل پوریا آج تک نسیم صادق اور نورالامین مینگل کو نہیں بھولا تو لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے کرتوں دھرتوں اور ماسٹر مائنڈز کو کیسے بھولے گا؟ یاد رکھے جانا چاہتے ہو تو قائد کا یہ قول یاد رکھو۔’’کام، کام اور صرف کام‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)