• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ بدھ اور جمعہ کو تین اہم واقعات دہلی، پیرس اور واشنگٹن میں ایسے ہوئے ہیں جن کے مضمرات پاکستان کےلئے نہایت دور رس ہوں گے۔ عمران حکومت ان سے کیسے نپٹے گی اس کا اندازہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وفاقی وزیر حماد اظہر کے سطحی بیانات سے کیا جاسکتا ہے۔ 

کیا تجاہل عارفانہ ہے۔ دہلی میں بدھ کو مودی حکومت نے 5اگست 2019ء کے اقدامات کے 22 ماہ بعد کشمیر کی آٹھ جماعتوں کے 14 رہنمائوں کا اجلاس طلب کر کے اپنا روڈ میپ دے دیا ہے۔ 

اجلاس میں گپکر اعلامیے کی حامی پیپلز الائنس کی جماعتیں بشمول فاروق عبدﷲ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی شامل تھیں۔ 

کانگرس کی نمائندگی مودی کے دیرینہ دوست غلام نبی آزاد نے کی جو جموں و کشمیر کی آزادانہ خصوصی حیثیت کی بحالی کی بجائے ایک بھارتی صوبہ بننے پہ مطمئن تھے۔ 

گو کہ گپکر اعلامیہ کی پارٹیوں خاص طور پر محبوبہ مفتی نے ریاست کی پرانی حیثیت بحال کرنے اور پاکستان سے بات کرنے پہ زور دیا، سب ہی انتخابی عمل میں شرکت پہ تیار نظر آئیں۔ یہ سب جماعتیں پہلے ہی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھرپور شرکت کر کے کامیاب ہوچکی تھیں۔

مودی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے از سر نو حلقہ بندیوں، سیاسی قیدیوں کی رہائی، سیاسی سرگرمیوں کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ لداخ کو یونین علاقہ برقرار رکھتے ہوئے جموں و کشمیر کو صوبائی درجہ دینے کا منصوبہ پیش کیا جبکہ آرٹیکل 370، 35-A کے معاملے کو زیر بحث نہیں لانے دیا گیا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔ غلام نبی آزاد اور عمر عبدﷲ نے اسے قبول کرلیا ۔

 ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات کا ماحول انتہائی دوستانہ قرار دیا گیا ۔ اگر کوئی اختلاف سامنے آیا تو بس حلقہ بندیوں پر ۔مودی نے پھر کشمیری قیادت کے ساتھ ہاتھ کردیا ہے اور شاید انہیں صوبے پہ راضی بھی کرلیا ہے جس میں کشمیری قیادت صرف مقامی سول سروس اور 35-A کے تحت کشمیر کی نسلیاتی نوعیت کے تحفظ پہ مصر ہے ۔ 

مودی نے 70برس بعد وہی ہاتھ کیا ہے جو جواہر لعل نہرو نے 1949ء میں شیخ عبداللہ کے ساتھ کیا تھا۔ مودی بھول گئے کہ یوں تو ’’دلی سے دوری اور دل کی دوری‘‘ دور ہونے سےہوئی۔ عوام کی منشا کے قتل پہ دل کب جڑتے ہیں؟ اب کوئی شاہ محمود قریشی سے پوچھے کہ یہ تبدیلی محض تعلقات عامہ کی کارروائی کیسے ہوئی۔ 

بلکہ پوچھنا تو یہ چاہئے کہ عمران حکومت نے بھارت سے بات چیت کے لئےآرٹیکل 370 ، 35-A اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کی شرائط کیوں عائد کی تھیں۔ پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی بھی ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ۔ 

غالباً وہ حلقے یقینا مطمئن ہوں گے جو گلگت و بلتستان کو صوبہ بنا چکے اور آزاد کشمیر کو سابقہ فاٹا کی سطح پر رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت نے لداخ کو یونین علاقہ بنالیا اور پاکستان نے گلگت و بلتستان کو صوبہ۔ اس کے بعد شاید ’’آزاد‘‘ کشمیر کی باری ہو جہاں اگلے انتخابات میں پاکستان کی تینوں جماعتیں (آزاد) کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے پہ انتخابات لڑیں گی اور ہوگا وہی جو گلگت و بلتستان کے انتخابات میں ہوا۔ 

کہیں اپنے اپنے مقبوضہ کشمیروں کو پکا مقبوضہ بنانے اور باہم تقسیم کرنے کا اہتمام تو نہیں ہوگیا؟ یہی تو کم و بیش لاہور میں نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی اور جنرل مشرف اور وزیراعظم من موہن سنگھ کے بیچ چار نکاتی فارمولے کی صورت طے پایا تھا۔

کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہ ہندوستان کو دینا ہے، نہ پاکستان کو، انہیں جبر سے آزاد اور اپنی مرضی سے پرامن زندگی گزارنے کا تو کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔ اور پاکستان اور بھارت کو اپنے تعلقات پہ از سر نو غور کرنے کےلئے بات چیت شروع کرنی چاہئے، دیواروں سے ٹکریں مارتے رہنا کوئی عقلمندی نہیں۔

دوسرا اہم واقعہ جمعہ کو پیرس میں FATF کے اجلاس میں ہوا جب فائنانشل ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھتے ہوئے باہمی کڑی نگرانی کے تحت مزید چھ بڑے اقدامات اور 27میں سے ایک سب سے کڑے نکتے پہ پھر سے باندھ دیا ہے۔ جو بہت ہی سخت شرط ہے وہ یہ ہے کہ جن تنظیموں اور افراد کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔

ان کے اور ان کے اثاثوں کے خلاف موثر ترین، نتیجہ خیز اور ناقابل تنسیخ تادیبی اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان نے یو این کی دہشت گرد قراردی گئی تنظیموں پر پابندیاں تو لگادیں جن میں لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعت الدعوۃ، حقانی نیٹ ورک، فلاح انسانیت و دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ لیکن موقع پرنگرانی کے نظام اور دو طرفہ قانونی اعانت کے باوجود پاکستان کے اقدامات کو قابل اعتماد نہیں پایا گیا۔ 

اب مزید ایک برس پاکستان کی سابقہ اسٹریٹیجک اثاثوں کے حوالے سے پوچھ گچھ اور تادیب جاری رہے گی۔ حافظ سعید کے گھر کے قریب بارودی دھماکہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر پاکستان مزید کچھ نہیں کرتا تو کوئی اور کچھ بھی کرسکتا ہے۔ 

یہ سب ہماری پرانی اسٹریٹیجک نادانیوں اور مہم جوئیوں کا انعام ہے جو قوم کو جانے کب تک بھگتنا پڑےگا۔

تیسرا اہم واقعہ واشنگٹن میں صدر بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبدﷲ عبدﷲ کی ملاقات کی صورت سامنے آیا ہے جبکہ پاکستان کے وزیراعظم کو اب تک ایک ٹیلیفون کال کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا۔ 

صدر بائیڈن نے افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلاء کو جولائی میں مکمل کرنے پر اپنے عزم کو دہرایا ہے اور صرف چھ سات سو امریکی فوجی سفارتی عملے کی حفاظت پر مامور رہیں گے۔ سیکورٹی، معاشی، انٹیلیجنس اور تربیتی امداد جاری رہے گی۔ سیکورٹی کے لئے 3.3 ارب ڈالرز و دیگر امداد دی جائے گی۔ 

امریکی خارجہ سیکرٹری، سلامتی کے مشیر اور وزارت دفاع نے افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا اڈہ بننے سے روکنے اور طالبان کے بزور طاقت کابل پہ قبضہ کرنے کے خلاف سخت پوزیشن اختیار کی ہے اور انہیں اس کام کے لئے کسی ’’تیسرے ملک ‘‘کی تلاش ہے۔ 

پینٹاگون کے اندازے کے مطابق افغان حکومت بمشکل چھ ماہ گزار پائے گی اور افغانستان خانہ جنگی کی نذر ہوجائے گا۔ افغانستان کے 419 اضلاع میں سے 81 پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے اور افغان فوج اور مقامی ملیشیاز کے ساتھ جنگ کا دائر وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

 لگتا ہے کہ طالبان کابل نہیں تو زیادہ تر افغانستان پر قابض ہوجائیں گے اور اس طوائف الملوکی کا شکار افغان عوام کے بعد پاکستان کے شمال مغربی علاقوں کے عوام ہوں گے۔ لاکھوں مہاجرین کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کا عفریت پھر سر اُٹھائے گا۔ 

جن افغان طالبان کو 20برس سے پناہ دینے کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے وہ اب پھر فاتح ہوکر ابھریں گے اور تاریخ کا پہیہ پیچھے گھمانے کےلئے جہاد جاری رکھیں گے۔ 

ان کی قبائلی ضد اور اماراتِ اسلامیہ افغانستان مع امیر پہ اصرار انہیں پھر دنیا سے ٹکرائے گا اور پاکستان کو اس سے نتھی کردیا جائے گا یا پھر طالبان سے لڑنے پر مجبور۔

تازہ ترین