• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ موجودہ حکومت نے جاری مالی سال کا وفاقی بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھ کر ہی بنایا تھا لیکن فنڈ کا خیال یہ ہے کہ بجٹ میں اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کے باوجود 2013-14ء کے بجٹ خسارے کو 1651/ارب روپے کے ہدف کے اندر نہیں رکھا جا سکے گا چنانچہ اس نے ایسی شرائط بھی عائد کیں جن سے معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں اور عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہو۔ اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ 2014-15ء کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کا اسیر رہے گا۔ ان شرائط میں ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ اور قومی اثاثوں کی نج کاری کا عمل تیز کرنا شامل ہو گا جو مہنگائی کا ایک اور طوفان لائے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہم انہی کالموں میں کہتے رہے ہیں کہ اگر ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موٴثر طور سے نافذ اور وصول کیا جائے تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح کم کر کے 5 فیصد پر لانے، پیٹرولیم لیوی ختم کرنے اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کئے بغیر بجٹ خسارے کو مکمل طور سے ختم کرنا ممکن ہو گا چنانچہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے نام پر عوام کو مزید نچوڑنے اور قومی سلامتی سے متصادم اقدامات اٹھانے کیلئے آئی ایم ایف کا حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا جواز ہی باقی نہیں رہے گا۔ اب اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے (جس کے ممبران میں ان 33 ممالک کے نمائندے شامل ہیں جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور جنہوں نے مجموعی طور پر مالی سال2011 ء میں 625/ارب روپے ٹیکس دیا تھا جو کہ اسی مالی سال میں حاصل ہونے والے مجموعی ٹیکس کا 30 فیصد تھا) کہا ہے کہ اگر پاکستان میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے تو ٹیکسوں کی شرح بڑھائے بغیر ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دو گنا ہو سکتا ہے۔ ایف بی آر نے 2013-14ء میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر17 فیصد کرنے اور عوام پر نئے ٹیکس عائد کرنے کے بعد ٹیکسوں کی وصولی کا تخمینہ 2475/ارب روپے اور بجٹ خسارے کا تخمینہ 1651/ارب روپے رکھا ہے۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبر کے مطابق بغیر ٹیکسوں کی شرح بڑھائے صرف ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے سے بجٹ خسارہ ختم ہو جائے گا یعنی آئی ایم ایف کے پاس بجٹ خسارے میں کمی کے نام پر کڑوی، ناروا اور عوام دشمن شرائط نافذ کرنے کے لئے حکومت کو مجبور کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے منشور کا بھی حصّہ ہے مگر مرکز، صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بجٹ میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے کیونکہ اس سے طاقتور طبقات کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ اس پس منظر میں قوم وزیراعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے یہ سوالات کرنے کا حق رکھتی ہے کہ:
(i) کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس وصول کیا جائے تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے5 فیصد کرنے کے باوجود بجٹ خسارہ ختم ہو جائے گا چنانچہ آئی ایم ایف کے پاس یہ جواز ہی نہ رہتا کہ وہ حکومت کو مجبور کرے کہ وہ عوام پر ٹیکسوں اور بجلی کے نرخ مرحلہ وار بڑھانے کیلئے دباؤ ڈالے۔
(ii) کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حکومت ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موٴثر طور پر نافذ کرنے سے اس لئے گریزاں ہے کہ اس سے خود اس کے اپنے ممبران اسمبلی اور دوسرے طاقتور طبقات کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی؟
(iii) کیا چند لاکھ طاقتور اور مالدار افراد کی خوشنودی کیلئے اپنے انتخابی منشور کو پس پشت ڈال کر آئی ایم ایف کی ایسی شرائط منظور کرنے کا کوئی اخلاقی جواز ہے جن سے قومی مفادات متاثر ہوتے ہیں یا 19 کروڑ عوام کی زندگی مزید اجیرن ہو جاتی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چند ہفتوں کے دوران آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے ضمن میں جو بیانات دیئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
(1) ”حکومت آئی ایم ایف کی کوئی ایسی شرط منظور نہیں کرے گی جو ملکی مفاد اور ملک کی خودمختاری کے خلاف ہو۔ ہم نے نہ ماضی میں کبھی سمجھوتہ کیا ہے نہ آئندہ کریں گے“ یہ باتیں ناقابل فہم ہیں۔ مثلاً پچھلے 15 برسوں میں (الف) وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف صاحب نے 1997ء میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ہمیں بجٹ بنانے کی آزادی بھی نہ رہی اور یہ کہ آئی ایم ایف ہم سے کہتا ہے کہ غریب کے منہ سے نوالہ چھین لو تو ہم یہ بے رحمی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ (ب) فوجی ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ بھکاریوں کے پاس شرائط منتخب کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ (ج) پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے 2008ء میں تسلیم کیا تھا کہ حکومت نے بجلی کے نرخ آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھائے ہیں۔ ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے نیا قرضہ امریکہ کی سفارش پر مل رہا ہے چنانچہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان کو امریکی مطالبات پر دل و جان سے عمل کرنا پڑے گا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اس بات کا اشارہ ملنے کے بعد سے ہی کہ پاکستان فنڈ سے نیا قرضہ لے گا، وطن عزیز میں دہشت گردی کی ہولناک وارداتیں اچانک بڑھ گئی ہیں۔ امریکی ایجنڈے کے مطابق امریکی جنگ لڑتے چلے جانا یا پاکستان کو ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب اب کرنا ہو گا۔
(2) 1997ء میں سرتاج عزیز صاحب نے کہا تھا کہ اگر ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 20 فیصد ہو جائے تو عوام کیلئے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اب 16 برس بعد وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہمارے جیسے کچھ دوسرے ممالک میں یہ تناسب 20 فیصد ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چند روز قبل کہا تھا کہ ہم ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھائیں گے۔ یہی وعدہ گزشتہ 16 برسوں سے متواتر کیا جا رہا ہے۔ مالی سال 1997ء میں یہ تناسب 13.4 فیصد تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں 5 برس بعد 2018ء میں اس تناسب کو 15 فیصد تک لے جانے کا عزم کیا گیا ہے جو کہ قطعی ناکافی ہے۔ یہ تناسب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگلے 5 برسوں میں بھی ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے انتخابی منشور پر عمل نہیں کرے گی چنانچہ معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آئے گی۔
قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک پاکستان کی مالیاتی خودمختاری کی علامت ہو گا مگر اسٹیٹ بینک اپنی خودمختاری سے دستبردار ہو چکا ہے۔ نومبر 2008ء میں گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنے اختیارات سے صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کیلئے قومی مفادات سے متصادم خط جاری کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور کچھ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد آج بھی غیرملکی شہریت رکھتے ہیں جبکہ صرف پاکستانی شہریت رکھنے والے ایماندار اور سینئر افسران کو نظرانداز کیا جا رہا ہے کیونکہ انہیں عالمی مالیاتی اداروں کی آشیرباد حاصل نہیں ہوتی۔ اسٹیٹ بینک، وزارت خزانہ کے اشارے پر گزشتہ دو برسوں سے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی کرتا رہا ہے مگر اب آئی ایم ایف کے احکامات پر اس ریٹ میں اضافہ کرے گا۔
تازہ ترین