اسلام آباد( فاروق اقدس/ نامہ نگارخصوصی) اپوزیشن کے اہم رہنمائوں کااس بات پر اتفاق نظر آرہا ہے کہ ملک میں قومی انتخابات متعینہ عرصے2023 سے قبل کرائے جانے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور اس حوالے سے وہ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ ایک تو وزیراعظم عمران خان کے قریبی وزراء اور رفقاء ایک سے زیادہ مرتبہ یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اپنے فیصلوں میں ’’بے لچک‘‘ عمران خان نہ صرف داخلی سطح پر ہی اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں اور وہ اپنے فیصلوں میں رکاوٹوں پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے حکومت کو خیربادکہہ کر اپوزیشن میں بیٹھنے کے لئے تیار رہتے ہیں تو دوسری طرف اب خارجہ امور میں بھی ان کا انداز سیاست اور بعض فیصلے خاصے جارحانہ دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں سی آئی کے سربراہ جو خاموشی سے پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور وزیر خارجہ نے پھر ان کے دورے کی تصدیق بھی کر دی تھی انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن مبینہ طور پر وزیراعظم نے ان سے ملاقات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کا منصب اپنے ہم منصب سے ملاقات کو ترجیح دے گا۔ بادی النظر میں یہ بات درست نظر آتی ہے کہ سی آئی اے کے چیف ولیم برنز کا دورہ پاکستان افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں تھا کیونکہ اس سے قبل بھی امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن بھی پاکستان کے دورے پر آچکے تھے اور انہوں نے افغانستان میں مستقبل میں امریکی آپریشنز کے لئے مدد حاصل کرنے کے بارے میں متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔ سی آئی اے کے چیف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا احوال امریکی جرائد میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کیا گیا تھا لیکن سی آئی اے چیف کی آمد اور وزیراعظم سے ان کی ملاقات نہ ہونے کی وجوہات حکومتی موقف دونوں ایک ساتھ بعد میں سامنے آئے۔