ڈاکٹر فیصل بن سعید، ملتان
ایک لائق طالبِ علم میں مضبوط قوّتِ ارادی، مستقل مزاجی اور نظم و ضبط جیسی خُوبیاں پائی جاتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اگر کسی طالبِ علم کو ان تمام اوصاف کو اپنی شخصیت کا حصّہ بنانے میں مشکل پیش آرہی ہو، تو ایسا کیا کیا جائے کہ نہ صرف یہ تمام خُوبیاں شخصیت کا حصّہ بن جائیں، بلکہ حصولِ تعلیم کا عمل بھی سہل لگے۔ اتنا سہل کہ بہت زیادہ ترغیب اور قوّتِ ارادی کا بھی سہارا نہ لینا پڑے۔ تو اس کے لیے آپ کو ایک موافق ماحول کی ضرورت ہے۔
آپ کو ایک جگہ مخصوص کرکے اُسے اس انداز سے ترتیب دینا ہوگا کہ وہاں موجود ایک ایک شے آپ کو لاشعوری طور پر پڑھائی کی طرف راغب کرے۔ اور ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہم جس ماحول میں موجود ہوتے ہیں، وہاں پائی جانے والی چھوٹی سے چھوٹی شے بھی ہمارے خیالات، جذبات کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یعنی جس طرح کا ماحول ہوگا،ہم پر اُسی طرح کے اثرات مرتّب ہوں گے۔ مثال کے طور پرکوئی فرد نماز نہیں پڑھنا چاہ رہا، مگر خود پر جبر کرکے مسجد میں داخل ہوجاتا ہے اور نماز نہ پڑھنے کے ارادے سے ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے،تو ابتدائی چند لمحات یونہی گزر جائیں گے، مگر پھر ماحول کی ایک ایک چیز اثرانداز ہونے لگےگی۔
یہاں تک کہ دماغ عبادت کی ترغیب دینا شروع کردے گا اوردس منٹ بعدوہی شخص خود کو عبادت میں مصروف پائے گا۔اِسی طرح ہم کچھ خریدنا نہیں چاہتے، مگر بازار چلے جاتے ہیں۔ ابتدا میں بازار کا ماحول اثرانداز نہیں ہوگا، لیکن پانچ منٹ بعد ذہنی کیفیت ماحول کے مطابق تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی اور محض دس منٹ بعد لاشعوری طور پر ہم خود کو کسی دکان کے اندر کھڑا کسی چیز کے دام پوچھتا پائیں گے۔ یعنی ماحول کی ہر چیز ہمیں کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لہٰذا اگر ہم ایک کمرا یا ایک کمرے کا کوئی حصّہ صرف تعلیم کے لیے مخصوص کردیں گے، تو لا محالہ وہاں کی ہر چیز ہمارے اندر ایک ترغیب پیدا کرے گی۔
چاہیں تو تجربہ کر دیکھیں کہ کسی ایسے مخصوص کمرے یا حصّے میں جاکر خاموشی سے دس منٹ بیٹھ جائیں۔ بس، آپ کے پاس موبائل فون یا کوئی اور ایسی چیزنہ ہو، جو ذہنی کیفیت تبدیل کرنے کا سبب بن سکے۔ اب میز پر کتابیں موجود ہیں، دیوار پرآپ کے مقاصد کی فہرست، تحریکی کلمات یا تصاویر، وائٹ بورڈ، اسکور بورڈ اور ٹائم ٹیبل آویزاں ہے۔ گھڑی سامنے ہے۔ آپ کوئی کام نہیں کررہے، بس خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھے دیواریں تک رہے ہیں، تو پانچ منٹ بعد ہی لاشعوری طور پر آپ ماحول کے اثرات محسوس کرنا شروع کردیں گے اور دس منٹ بعد شعوری طور پر جذباتی کیفیت تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کا ماحول آپ کو پڑھنے پر مجبور کردے گا۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر طلبہ پڑھنے پڑھانے کا ماحول ترتیب نہیں دیتے اور’’پڑھائی میں دِل نہیں لگتا، فوکس نہیں ہوتا، مستقل مزاجی نہیں ہے‘‘ جیسے شکوے شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ اِسی طرح بعض طلبہ کو لگتا ہے کہ وہ تعلیمی ماحول ہی میں پڑھ رہے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، کیوں کہ اگر آپ کسی کثیر مقاصد کمرے(ملٹی پرپز روم) میں بھی پڑھ رہے ہوں، تو آپ کو زیادہ قوّتِ ارادی اور ارتکازِ توجّہ درکار ہوتی ہے، لہٰذا حصولِ تعلیم کے لیے مخصوص جگہ کو صرف پڑھنے ہی کے لیے استعمال کیا جائے اور دیگر امور کے لیے کمرے یا جگہیں علیٰحدہ رکھی جائیں۔
ایسا ماحول ترتیب دینے کے کئی فوائد ہیں۔ مثلاً پڑھنے کے لیے خود پر جبر نہیں کرنا پڑتا۔ توجّہ مبذول کرنے کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ یعنی آپ ایک گھنٹے میں اتنا کام کرلیں گے ،جو دوسری صُورتوں میں دو یا تین گھنٹے میں کرتے ہیں۔ روزانہ پڑھنے کی عادت، شخصیت کا حصّہ بن جائے گی اور کسی کی ترغیب کی بجائے آپ خود پڑھنے کی خواہش کریں گے۔ ماحول ترتیب دینے کے لیے چار باتوں کا خاص خیال رکھیں۔ ایسا کمرا یا جگہ مخصوص کریں،جہاں آپ سوتے ہوں، نہ موبائل فون استعمال کرتے ہوں اور نہ ہی ٹی وی وغیرہ دیکھتے ہوں۔
کمرے میں مخصوص میز، کرسی یا آرام دہ گدّا یا کُشنز موجود ہوں، جن پر بیٹھنے سےکمر یا گردن میں درد نہ ہو۔ ہر وہ شئے جو پڑھنے میں خلل کا سبب بنے، کمرے سے نکال دیں۔ میز پر بھی نصابی کتب کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ البتہ ایسی اشیاء جو پڑھنے پر راغب کریں اور یک سوئی پیدا کریں، ضرور ہونی چاہئیں۔
جیسے کتابیں، وائٹ بورڈ، اسکور بورڈ، تحریکی کلمات یا تصاویر، مقاصد کی فہرست، ٹائم ٹیبل اور ٹریکنگ سسٹم، جس کے ذریعے یہ معلوم ہوگا کہ آپ روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ کتنا پڑھ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے، بعض طلبہ سوچ رہے ہوں کہ ہم تو ماحول ترتیب دیئے بغیر بھی بہت اچھا پڑھ لیتے ہیں۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا، مگر جب آپ ایک پڑھنے پڑھانے والے ماحول میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھنا شروع کریں گے، تو آپ کو پڑھنے کے لیےبہت کم مشقّت اُٹھانی پڑے گی۔