قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کی شق وار منظوری جاری ہے، کثرتِ رائے سے فنانس بل پیش کرنے کی تحریک منظور کر لی گئی جس کے بعد وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں فنانس ترمیمی بل 2021 ء پیش کر دیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔
قومی اسمبلی اجلاس کے اجلاس میں فنانس بل 2021ء کی شق وار منظوری کے دوران فنانس بل کی شق 2 پر اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔
شق 2 پر وزیرِ خزانہ شوکت ترین کی پیش کردہ ترمیم منظور کر لی گئی جس کے بعد قومی اسمبلی نے فنانس بل کی شق 2 کی منظوری دے دی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے نئی شق کا اضافہ کر دیا گیا۔
حکومتی ترمیم کی اپوزیشن نے بھی مخالفت نہیں کی۔
ترمیم کے مطابق ارکانِ اسمبلی کو اب ایئر ٹکٹس کے بجائے واؤچر دیئے جائیں گے۔
نئی شق کے اضافے کی ترمیم رانا قاسم نون نے پیش کی۔
وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین کے اپوزیشن کے اعتراضات مسترد کرنے پر ایوان میں اپوزیشن ارکان نے احتجاج کیا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر سمیٹتے ہوئے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ انفلیشن 7 فیصد ہے، ان کے وقت میں بھی فوڈ انفلیشن 7 فیصد تھی، بین الاقوامی سطح پر قیمتیں بڑھی ہیں، جب امپورٹ کریں گے تو انفلیشن بھی امپورٹ کرتے ہیں، زراعت پر ڈیڑھ سو ارب روپے لگا رہے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کام نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ ہم غربت کو کم کریں گے، چند سالوں میں خوش حالی ہو گی، آپ سیاست نہ کریں، میرٹ پر بات کریں، آپ 20 بلین ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئے ہیں، ہمیں آئی ایم ایف جانا پڑا، مجھ پر میرٹ پر تنقید کریں، میں ٹھیک کروں گا، ساری دنیا میں نیگٹیو گروتھ ہوئی ہے، ہمارا مقصد لوگوں کو گرفتار کرنا نہیں ہے، گرفتاری کی پاور ایف آئی آر کے پاس نہیں ہوگی۔
شوکت ترین نے بتایا کہ ایک کمیٹی بنے گی جس کو میں ہیڈ کروں گا، ٹیکس نہ دینے والوں کو چھوڑ دیں تو جی ڈی پی نہیں بڑھے گی، ٹیکس کی جی ڈی پی 20 فیصد تک نہیں لے جائیں گے تو لوگوں کا خیال کیسے کریں گے، ان ڈائریکٹ ٹیکس سمجھنے کی کوشش کریں، ان ڈائریکٹ ٹیکس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ 18 ٹریلین روپے کی تجارت ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے، دکاندار صارف سے ٹیکس لے رہا ہے، ہمیں نہیں دے رہا، تاریخ میں پہلی بار غریب کیلئے روڈ میپ دیا گیا ہے، 74 سال کی تاریخ میں غریب کیلئے روڈ میپ نہیں دیا گیا تھا، لوگوں نے بہت باتیں کیں کہ ہم روٹی بھی دیں گے۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ ہم نے اعداد و شمار سامنے رکھے ہیں، ہم کر کے بھی دکھائیں گے، ہم نے نچلی سطح پر لوگوں کی براہِ راست مدد کرنی ہے، ایک بجٹ پیش کیا اور پھر بجٹ بحث کو سمیٹا، یہاں پھر تقریریں شروع ہو گئیں، 4 ملین لوگوں کو گھر ملیں گے، صحت کارڈ ملےگا تو یہ تو فارغ ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار رکھے ہیں اور ہم کرنے والوں میں سے ہیں، باتیں کرنے والوں میں سے نہیں ہیں، زراعت پر پیسے خرچ نہ کرنے کی وجہ سے اشیائے خور و نوش پر مہنگائی بڑھی، راعت کے لیے 63 ارب روپے رکھے اور کُل 150 ارب روپے زراعت پر خرچ کریں گے، اشیائے خور و نوش اور انٹر نیٹ پر ٹیکس ختم کر دیا گیا، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی صرف زراعت کی ترقی سے ممکن ہے۔
وزیرِ خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ کھاد پر ٹیکس چھوٹ ختم نہیں کر رہے، ڈیڑھ کروڑ افراد کی فہرست ہے جو جان بوجھ کر ٹیکس ادا نہیں کرتے، جان بوجھ کر ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا، سالانہ ڈھائی کروڑ سے زائد آمدن والا اگر ٹیکس نہیں دے گا تو اسے پکڑا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کرنے کے لیے زبانی رائے شماری پھر چیلنج کر دی گئی، جس پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے گنتی کرنے کی ہدایت کر دی۔
ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ تحریک کے حق میں ارکان کھڑے ہو جائیں،جس کے بعد تحریک کی منظوری کے لیئے گنتی کا عمل ہوا۔
اس سے قبل اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ پہنچے۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور سابق قائدِ حزب اختلاف خورشید شاہ بھی ایوان میں پہنچے۔
اپوزیشن ارکان نے ڈیسک بجا کر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور خورشید شاہ کا استقبال کیا۔