• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست و سیادت جو شرف و ظرف کا استعارہ ہے، اہلِ مغرب کے ہاں اس کے اہل وہ یگانہ روزگار ہوتے ہیں جو امور مملکت چلانے کی بےپناہ کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں، اسلام میں سیاست اس کارِ خیر کو کہتے ہیں جس سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں، اس طرح امور مملکت کا نظم و نسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست متذکرہ معانی و مفاہیم کے کس قدر قریب ہے؟ یونانی اصطلاح و مغرب کی تعبیر سے قطع نظر اگر ہم اپنی اسلامی جمہوریہ کی سیاست کا اسلام کے مطالب و مطلوب کی روشنی میں بھی جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ شر خیر پر حاوی ہے، گویا سیاسی و مذہبی سیاستدانوں کی جانب سےنام تو اسلام کا لیا جاتا ہے لیکن عملی اعتبار سے سلامتی خال خال ہے۔ یہاں کہنا محض یہ ہے کہ ہماری مروجہ سیاست قابلِ رشک نہیں، لوگ سیاست کو منافقت اور موقع پرستی گردانتے ہیں، اس کی وجہ جہاں روزِ اول سے یہاں جمہوریت کیخلاف سازشیں ہیں وہاں ابن الوقت سیاستدانوں کا وہ کردار بھی ہے جس نے سیاست کو ایسا بازار بنا دیا ہے جس میں صرف وہ کامیاب ہے جو چرب زبان، پینترے بدلنے والا اور پیسہ خرچ کرنے والا ہے۔ اسی سبب سے پارلیمان آئے روز میدان کارزار بنی اقوامِ عالم میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کرتی رہتا ہے۔ اس دشتِ ملامت میں البتہ معدودِ چند پارلیمنٹرین ایسے بھی ہیں جو اپنے حصےکی شمعیں جلاتے رہے، ان میں سے ایک ہر دلعزیز عثمان خان کاکڑ گزشتہ دنوں اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر آسودۂ خاک ہوئے۔ عثمان کاکڑ اہلِ پاکستان سے اُس وقت متعارف ہوئے جب وہ 2015میں سینیٹر بنے۔ ایسے وقت میں جب قائدین کے قصیدے پڑھنا، کرپشن پر شرمندگی کی بجائے تاویلات تراشنا اور اقتدار سے محرومی کے نوحے پر مشتمل تقاریر سینیٹ میں معمول تھیں، عثمان خان کی تقریریں جمہوریت، پارلیمنٹ و سول بالادستی اور چھوٹے صوبوں کے حقوق کا عَلم لئے ایک جہاں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی تھیں، ملک کے کسی بھی حصے میں ظلم ہوتا، سینیٹ میں وہ مظلوم کی آواز بن جاتے۔ اُن کا تعلق جہاندیدہ سیاستدان محمود خان اچکزئی کی قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے تھا، عثمان خان نہ صرف سینیٹ بلکہ ہر فورم پر پختون بلوچ حقوق کی ترجمانی کرتے، اپنی جماعت کے علاوہ دیگر جماعتوں میں بھی انہیں قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا اور احترام سے عثمان لالہ کہہ کر پکارا جاتا۔ اپنی اس مقبولیت اور پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کی وجہ سےکہا جارہا تھاکہ وہ مارچ 2021میں سینیٹ کے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر منتخب کر لئے جائیں گے لیکن وہ منتخب نہ ہو سکے، انتخابی نتائج آنے کے بعد مرکزی رہنمائوں کے اجلاس، جس میں عثمان کاکڑ بھی موجود تھے، پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رضا محمد رضا نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل بعض اسٹیبلشمنٹ نواز عناصر کی وجہ سے عثمان خان ہار گئے، ہمیں جے یو آئی نے ووٹ نہیں دیا۔ بہرکیف عثمان لالہ پارلیمان سے تو باہر کردیے گئے لیکن اُن کے راج کی بساط دلوں پر کچھ یوں بچھ گئی تھی کہ اُن کی مقبولیت میں ذرہ برابر کمی نہ آسکی، یہاں تک کہ سر اُٹھا کر جینے والے اس شخص نے جس بے خوفی و بےباکی سے موت کو گلے لگایا، اس ادا نے اُسے امر کر دیا، کہا جاتا ہے کہ اُن کا جنازہ بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا، کراچی سے بلوچستان لے جاتے ہوئے اُن کی میت کو بلوچوں نے ہر علاقے میں والہانہ سلام عقیدت پیش کیا، یہ اس امر کا اعلان تھا کہ یہ المیہ ایک خاندان ایک پارٹی یا ایک قوم کا نہیں، تمام چھوٹی قومیتوں اور جمہوریت پسندوں کا اجتماعی درد لئے ہوئے تھا۔اجتماع سے خطاب میں مرحوم کے صاحبزادے 27سالہ خوشحال خان کا صبر و استقامت دیدنی تھا، انہوں نے کہا کہ والد شہید ہیں اور شہید مرتے نہیں، انہوں نے ایئر ایمبولینس و دیگر امور میں تعاون پر بالخصوص اصغر خان اچکزئی اور کراچی میں علاج پر سندھ حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ دوسری طرف عثمان کاکڑ کے اہلِ خانہ کے اس موقف کہ موت طبعی نہیں، شفاف تحقیقات کرائی جائے، پر بلوچستان حکومت نے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں یہ امر افسوسناک ہے کہ عثمان لالہ کے جنازوں کے اجتماعات کو بیشتر قومی الیکٹرونک چینلوں پر نظر انداز کر دیا گیا، کراچی جیسے شہر میں جہاں سو دو سو کے اجتماعات بریکنگ نیوز بن جاتے ہیں، وہاں باغ جناح کراچی میں ہونے والے عثمان لالہ کے جنازے کو کوریج نہیں دی گئی، راقم اس جنازےمیں موجود تھا، تاحدِ نظر لوگ ہی لوگ تھے۔ اس طرح مسلم باغ کے جنازے میں شریک لاکھوں لوگوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ خبر کا تعین اب میرٹ پر نہیں بلکہ دیگر ترجیحات پر ہوتا ہے، سوشل میڈیا سے اب کوئی واقعہ مخفی نہیں رہتا، اس سانحہ سے بھی ایک جہاں آگاہ ہوا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ چھوٹے صوبوں کے احساسِ محرومی میں اضافے اور یکجہتی متاثر کرنے والے ایسے عوامل سے اجتناب کیا جائے۔

تازہ ترین