• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر سسکیاں لے رہے ہیں۔شہرِ قائد میں غریبوں کے گھر مسمار ہورہے ہیں۔امیروں کے لئے نئی نویلی بستیاں وجود میں آرہی ہیں۔ سمندر کے نزدیک بھی اور شہری حدود کے آخر میں بھی۔جمہوریت کا دَور ہے۔ یہ فیصلے تو عوام کو کرنے چاہئیں کہ شہروں کے ماسٹر پلان کیا ہوں، محصولات اور آئندہ سال کے اخراجات کیا ہوں؟

سٹی کونسل ہال مہینوں سے خاموش ہیں۔ منتخب شہری حاکموں کی بجائے ان مناصب پر ایڈمنسٹریٹر براجمان ہیں۔ بجٹ بھی وہی پیش کررہے ہیں۔ وفاق میں بجٹ پر اعتراضات کرنے والوں کو منی پاکستان کراچی کا بجٹ غیر منتخب افراد کے ہاتھوں پیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ویسے خوشی کی بات ہے کہ کے ایم سی کا بجٹ خسارے کا نہیں ہے۔ محصولات کا اندازہ25982.414 ملین روپے ہے۔ اخراجات25970.467 ملین روپے۔ یہ محصولات پورے وصول ہوسکیں گے کہ یا نہیں؟ یہ کے ایم سی کے اہلکاروں پر منحصر ہوگا۔ کے ایم سی نے کراچی الیکٹرک سے بھی واجبات وصول کرنے ہیں اور کے پی ٹی سے بھی۔ کے ایم سی کے اسپتالوں کے لئے 68ملین روپے وینٹی لیٹرز خریدنے کے لئے رکھے گئے ہیں۔ باغات کے لئے 1039ملین روپے۔ 50ملین پرندوں اور جانوروں کے لئے جو سفاری پارک کی زینت ہوں گے۔ اسکول کے ایم سی سے لے لئے گئے ہیں۔ اس لئے تعلیم کے لئے بجٹ میںرقم مختص نہیں کی گئی۔

کئی کروڑ سے زیادہ آبادی حق رائے دہی سے محروم ہے۔ کونسلروں، یونین کونسلوں کے چیئرمینوں کی مسندیں خالی ہیں۔ کسی شاہراہ پر، کسی چورنگی پر، کراچی پریس کلب کے اور دوسرے پریس کلبوں کے باہر اس سنگین محرومی پر کوئی احتجاج نہیں ہورہا ہے۔ اس سے کتنی محرومیاں، پیچیدگیاں، نفسیاتی، معاشی، انتظامی الجھنیں پیدا ہورہی ہیں۔ جمہوری دَور میں ملک کے مالکوں، طاقت کے سر چشمہ عوام کو سہولت ان کے گھروں پر نہیں مل رہی۔ قائد اعظم کا شہر پیدائش، مدفن اپنے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم ہے۔ کوئی آواز نہیں اٹھارہا۔ بڑی تعداد میں مہاجر، سندھی، بلوچ، سرائیکی، پنجابی، بلتی اور کشمیری جو مستند اہالیانِ کراچی ہیں۔ انہیں اپنی یونین کونسلوں،ٹائون حکومتوں اور میئر کے لئے حقِ رائے دہی کے استعمال کے لئے الیکشن منعقد نہیں کیے جارہے۔ الیکشن کے اعلان سے قبل جو قانونی کارروائیاں جلد از جلد مکمل ہونی چاہئیں۔ ان میں دیدہ دانستہ تاخیر کی جارہی ہے۔یہی حال حیدر آباد، سکھر، میرپور خاص، نواب شاہ اور لاڑکانہ کا بھی ہے۔

آج کے دَور میں جب ہر سطح پر منتخب حکمرانی کے ادارے قائم کیے جارہے ہیں۔ اُن کے غیر فعال ہونے سے کدورتیں بڑھ رہی ہیں۔ اپنے کام پر آنے جانے والوں کو آرام دہ سرکاری ٹرانسپورٹ میسر نہیں۔ علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب نہیں ۔ لوگ آپس میں شکایتیں کررہے ہیں۔ کتنے برسوں کی جدو جہد کے بعد جمہوری ڈھانچے قائم کیے گئے تاکہ عوام اپنی قسمت کے فیصلوں میں اپنے آپ کو شریک سمجھیں لیکنElectableانتخابیے حکمرانی کو اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں۔ اس لئے ایم این اے ، ایم پی اے، مقامی حکومتوں کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ قومی سیاسی پارٹیاں اپنے شدید اختلافات کے باوجود اس نکتے پر متفق ہیں کہ بلدیاتی ادارے قائم نہیں ہونے چاہئیں ۔ کراچی 1947سے کتنے مختلف ادوار کا عینی شاہد رہا ہے۔ زخم بھی سہتا رہا ہے اور جدو جہد بھی کرتا رہا ہے۔ بھارت سے گھر بار چھوڑ کر آنے والے مہاجرین کی اکثریت کو گود میں لینے والا۔ پاکستان کا پہلا وفاقی دارُالحکومت جہاں مشرقی پاکستانی بھی رہتے تھے۔ مغربی پاکستانی بھی۔ پھر 1970سے سندھ کا دارُالحکومت۔ 8435مربع کلومیٹر سے 3780مربع کلومیٹر تک پھیل جانے والا۔ چند لاکھ سے لے کر دو کروڑ سے زائد انسانوں کو اپنے دامن میں بسانے والا۔ عزت اور روزگار دینے والا۔ پیار محبت بانٹنے والا۔ سب سے زیادہ کارخانوں ملوں۔ صنعتی علاقوں والا شہر مقامی نمائندگی سے محروم ہے۔مقامی حکومتوں سے اختیارات چھین لئے گئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ نئی حلقہ بندیاں ناگزیر ہیں۔ لیکن اس عمل کی رفتار بہت سست ہے۔ پہلے بھی حلقوں کی لسانی اور نسلی شناخت تبدیل کی گئی۔ اب بھی یہی ہورہا ہے۔ لاوا پک رہا ہے۔

کراچی کتنا بد قسمت ہے۔ 2000سے اس کے فرزند ملک کی سربراہی کررہے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف۔ پھر آصف علی زرداری۔ پھر جناب ممنون حسین اور اب جناب عارف علوی۔ جنرل مشرف نے تو کراچی کو با اختیار مقامی حکومت دی۔ نعمت اللہ خان اور سید مصطفیٰ کمال کو فنڈز ملے۔ ان کے کاموں کو عوام یاد رکھتے ہیں۔ لیکن سویلین صدور نے کراچی کو کیا دیا۔ 2008سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ کراچی میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔ ایک اور بو العجبی کہ پاکستان تحریک انصاف کو کراچی سے قومی اسمبلی کی 14سیٹیں ملیں لیکن نہ کراچی پی ٹی آئی کا ہوسکا اور نہ ہی پی ٹی آئی والے کراچی کے ہوسکے۔

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

پی ٹی آئی کے ایم این اے کسی چورنگی پر کراچی والوں کا دُکھ بانٹتے نظر نہیں آتے۔ سیاسی اور سماجی طور پر کراچی کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ان کے شہر کی قسمت کے فیصلوں میں وفاق انہیں اعتماد میں لیتا نہ صوبہ۔

کراچی پاکستان کا ماضی بھی ہے۔ حال اگر چہ بدحال ہے مگر کراچی پاکستان کا مستقبل بھی ہے۔ شہر کبھی بے زبان نہیں ہوتے۔ وقتی طور پر وہ لب سی لیتے ہیں لیکن یہ صورت حال کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ کراچی کی تقدیر منتخب کراچی میٹروپولیٹن کونسل کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ بڑے شہر منتخب مقامی حکومتوں کے ہاتھوں مستحکم ہوتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کے اتنے بڑے حصّے کا عدم اطمینان اچھا شگون نہیں ہے۔ اس لئے جتنی جلد بلدیاتی انتخابات کراچی سمیت سندھ کے سارے شہروں میں ہوجائیں تو یہ خود صوبائی حکومت کے حق میں ہوگا۔ سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ بہت سا دبائو تو بلدیاتی ادارے سنبھال لیں گے۔ سیاسی جماعتیں غلط طور پر بلدیاتی اداروں کو اپنا رقیب خیال کرتی ہیں حالانکہ یہ ان کے دست و بازو ہوتے ہیں لیکن شہروں میں سرگرم این جی اوز، کاروباری تنظیمیں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلبہ، دانشور، ادیب، شعرا تو مقامی حکومتوں کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ کیوں خاموش ہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین