• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹوممالک گزشتہ 20سال سے افغانستان میں موجود ہیں اور اب آخر کار تھک ہار کے ان تمام ممالک نے یکم مئی سے افغانستان سے اپنے انخلا کا عمل شروع کیا ہے جو 11ستمبر 2021تک نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں اور واشنگٹن میں پینٹاگون پر حملوں کی 20 ویں برسی کے موقع پر مکمل کرلیا جائے گا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کے انخلا کے موقع پر اس وقت سب سے اہم ایجنڈا افغانستان، خاص طور پر کابل ائیر پورٹ اور غیر ملکی سفارتخانوں کی سیکورٹی ہے کیونکہ طالبان اب ویسی ہی طاقت پکڑتے جا رہے ہیں جو انہوں نے امریکہ اور نیٹو کے اتحادیوں کے افغانستان پر قبضہ کرنے سے پہلے حاصل کر رکھی تھی۔

اس سلسلے میں سب سے اہم مقام کابل کا ’’حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈہ‘‘ ہے جس کی سیکورٹی کے فرائض ترکی کو سونپے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ترکی کی وزارتِ دفاع کے ساتھ ہونے والےمذاکرات کے نتیجے میں کابل کے ہوائی اڈے کی سیکورٹی ترکی کے حوالے کرنے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہےاور اس سلسلے میں تفصیلات طے کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اس سلسلے میں ترکی کو ہر طرح کی مالی اور سفارتی امداد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔گزشتہ ہفتے نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر رجب طیب ایردوان اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ملاقات کے دوران بھی اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھااور صدر بائیڈن نے ترک صدر ایردوان کو افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کابل کے ہوائی اڈے پر سیکورٹی کی ذمہ داری ترکی کو دینے کی سرکاری طور پر پیش کش کی جسے ترک صدر نے بخوشی قبول کرلیا۔

ترکی اور افغانستان کے درمیان تاریخی تناظر میں بھی بڑے گہرے تعلقات چلے آرہے ہیں۔ افغانستان میں نیٹو کے دائرہ کار میں یہ ترک فوجی دستے ہی تھے جن پر افغان عوام گل پاشی کرتے رہے ہیں اور ترک صدر کو افغانستان میں بے حد پسند کیا جاتا ہے ۔صدر ایردوان کو طالبان کی جانب سے بھی بڑا پسند کیا جاتا ہے بلکہ صدر ایردوان نے اپنے نوجوانی کے ایام میں طالبان کی ابتدائی تحریک کی کھل کر حمایت کی تھی اورطالبان تحریک کے کئی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں جس پر صدر ایردوان کو برسر اقتدار آنے کےبعد تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا تاہم صدر ایردوان اب بھی طالبان کے بارے میں قوانین کی پاسداری کی صورت میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لیکن ازبک رہنما رشید دوستم کی کھلی حمایت کرنے اور ترکی میں رشید دوستم کے طویل عرصہ قیام کے دوران انہیں ہر ممکنہ امداد فراہم کرنے کی وجہ سے طالبان ترکی سے ناراضی کا بھی اظہار کرتے ہیں اور چند ماہ قبل افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی بین الاقوامی کانفرنس استنبول میں منعقد کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا، طالبان نے اپنی اسی ناراضی کے باعث اِس میں شرکت نہ کر نے کا اعلان کردیا تھا چنانچہ ترکی کی میزبانی میں یہ بین الااقوامی کانفرنس منعقد نہ ہوسکی۔ گزشتہ دنوں دوحہ میں طالبان کے ترجمان، سہیل شاہین نے ترکی کی جانب سے کابل کے ہوائی اڈے کی سیکورٹی کے فرائض ادا کرنے سے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا کہ جس نیٹو کے فوجی افغانستان سے اپنا انخلا عمل میں لا رہے ہیں، ترک فوجی دستے بھی اس انخلا کا ایک حصہ ہوں گے اور ان کو بھی افغانستان سے باہر نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی گزشتہ 20برسوں سے نیٹو افواج کا حصہ رہا ہے ، لہٰذا انہیں 29فروری ، 2020 کو امریکہ کے ساتھ معاہدے کے مطابق افغانستان سے اپنا انخلا شروع کردنیا چاہئےتاہم افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ترکی، جو عالمِ اسلام کا بہت اہم ملک ہے اور اس کے افغانستان کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں ،کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا جائے گا۔

امریکہ ، نیٹو اتحادی ممالک، افغان حکومت اور ملک کی سب سے موثر اورقوت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ گاہے گاہے جاری رہا لیکن یہ مذاکرات کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور امریکی اور نیٹو فوج طالبان سے امن معاہدے پر پہنچے بغیر افغانستان سے انخلا کرنے کی تیاری کر رہی ہےجس سے افغانستان کی صورتِ حال بگڑتی چلی جا رہی ہےاور اس انخلا کے بعد کابل کےبین الاقوامی ہوائی اڈے کی سیکورٹی کا معاملہ بھی خطر ناک صورت اختیار کرجائےگا ۔ اس وقت نیٹو کے دائرہ کار میں افغانستان میں ترک فوجیوں کی تعداد 500کے لگ بھگ ہے اور ترکی کو اس تعداد میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور ترکی اس پر ابھی سے اپنی تیاریوں کا آغاز کرچکا ہےلیکن ترکی کی حزبِ اختلاف نے صدر ایردوان کے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتےہوئے اسے ترک فوجیوں کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔

ترک صدر ایردوان نے کابل کے ہوائی اڈے کی سیکورٹی کیلئے پاکستان اور ہنگری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیش کش بھی کی ہے۔ صدر ایردوان اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی حمایت اور مدد کے بغیر کابل کے اڈے کی سیکورٹی قائم کرنا ممکن نہیں ہے، اسی لئے انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کے تعاون سے کابل کے ہوائی اڈے کی سیکورٹی کا بندو بست کیے جانے اور تمام غیر ملکی سفارت خانوں کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنانے سے متعلق آگاہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کابل کےہوائی اڈے کی سیکورٹی کس طرح ترکی کے ساتھ مل کر یقینی بناتی ہے؟

تازہ ترین