ربیعہ سعیدی
مُلا نصیرالدین کا گدھا مر چکا تھا اور اس کے بغیر ان کی زندگی بڑی مشکل سے گزر رہی تھی ۔ چنانچہ کئی مہینوں کی محنت و مشقت کے بعد کچھ رقم جمع کی اور ایک نیا گدھا خریدنے کی غرض سے بازار کا رخ کیا ۔ حسبِ منشا گدھا خریدا اور گھر کی راہ اس طرح لی کہ وہ گدھے کی رسی تھامے آگے آگے چل رہے تھے اور گدھا ان کے پیچھے پیچھے تھا ۔
راستے میں چند ٹھگ قسم کے لوگوں نے ملا کو گدھا لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ ان کے قریب ہوگئے، ان میں سے ایک آدمی گدھے کے بالکل ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آہستہ سے گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنی گردن میں ڈال لی اور گدھا اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیا ۔
جب ملا اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے اور مڑ کے پیچھے دیکھا تو چار ٹانگوں والے گدھے کی بجائے دو ٹانگوں والا انسان نظر آیا ۔ یہ دیکھ کر ملا سخت حیران ہوئے اور کہنے لگے ”سبحان اللہ! میں نے تو گدھا خریدا تھا یہ انسان کیسے بن گیا؟“ ۔یہ سن کر وہ ٹھگ بولا، ”آقائے من! میں اپنی ماں کا ادب نہیں کرتا تھا اور ہر وقت ان کے درپے آزار رہتا تھا ۔ ایک دن انہوں نے مجھے بددعا دی کہ تو گدھا بن جائے ۔
چنانچہ میں انسان سے گدھا بن گیا تو میری ماں نے مجھے بازار میں لے جا کر فروخت کر دیا ۔ کئی سال سے میں گدھے کی زندگی بسر کر رہا تھا ۔ آج خوش قسمتی سے آپ نے مجھے خرید لیا اور آپ کی روحانیت کی برکت سے میں دوبارہ انسان بن گیا۔“ یہ کہہ کر اس نے ملا کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور بہت عقیدت کا اظہار کیا ۔ملا کو یہ بات بہت پسند آئی ۔ وفورِ مسرت سے نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگے ” اچھا اب جاؤ اور اپنی ماں کی خدمت کرو ۔ کبھی اس کے ساتھ گستاخی نہ کرنا “ ۔
ٹھگ ملا کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو گیا ۔ دوسرے دن ملا نے کسی سے کچھ رقم ادھا رلی اور پھر گدھا خریدنے بازار پہنچ گئے ۔ ان کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ وہی گدھا ایک جگہ بندھا کھڑا ہے جو انہوں نے کل خریدا تھا ۔ چنانچہ وہ اس گدھے کے قریب گئے اور اس کے کان میں کہنے لگے ” لگتا ہے تم نے میری نصیحت پر عمل نہیں کیا اس لیے پھر گدھے بن گئے ہو “ ۔