• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، مگر شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کی معروف لوک داستان عمر ماروی کو سندھ میں کچھ زیادہ ہی دہرایا جاتا ہے، قانون سے انصاف لینے کے لیے ایک خاتون سکھر پریس کلب پر احتجاج کرتی نظر آئیں۔

خیرپور کی رہائشی خاتون ٹیچر کنول کو چند روز قبل بااثر ملزمان نے اغواء کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس ہے کہ اغواء کا مقدمہ درج کرنے کو تیار نہیں۔

پاکستان پرانا ہو یا پھر آج کا نیا پاکستان، کہانی ایک ہی ہے اور یہ کہانی ہے جنگل کے قانون کی، کہنے میں شرم آتی ہے اور سُننے میں بُرا لگتا ہے، مگر سچ تو یہی ہے کہ طاقتور ظالم ہے اور اس ظالم کو قانون کے تمام چور راستوں کا معلوم ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کمزور مظلوم بھی ہے اور محکوم بھی۔

خیر پور کی تحصیل ٹھری میر واہ کی رہائشی خاتون ٹیچر کنول آرائیں بھی ایسی ہی ایک مظلوم خاتون ہیں، جنہیں قانون کے رکھوالوں سے انصاف نہ ملا تو اپنے بوڑھے ماں باپ کو لے کر سکھر پریس کلب مدد کے لیے پہنچیں۔

3 روز قبل دن دیہاڑے 5 اوباش افراد نے اسلحے کے زور پر کنول کو اغواء کرنے کی کوشش کی تاہم کنول کامیاب مزاحمت کے باعث محفوظ رہیں۔

سندھ کی یہ ماروی کوئی اکیلی لڑکی نہیں جسے وقت کے ظالم لٹیروں سے اپنی جان اور عزت کا خطرہ ہو، سندھ دھرتی کے سینے میں ایسی ہزاروں مارویاں ابدی نیند سو رہی ہیں اور ہزاروں انصاف اور امان کی تلاش میں بھٹک رہی ہیں۔

بھٹکنا تو بنتا ہے جب اغواء کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود ملزم کو عدالت سے ضمانت مل جائے اور سرکاری مشینری سے جوڑ توڑ کر کے پرانی تاریخوں میں جعلی نکاح نامہ بنا لیا جائے تو وقت کی ماروی کا انصاف کی تلاش میں بھٹکنا تو بنتا ہے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ پولیس پر سیاسی دباؤ ہے اس لیے مظلوم اسکول ٹیچر کنول آرائیں کو انصاف ملنا مشکل ہے۔

شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کی لوک داستان عمر ماروی کے حکمراں عمر میں قومی غیرت زندہ تھی اسی لیے اسے ماروی کی مرضی اور پاک دامنی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے، لیکن یہاں کا معاملہ کچھ الگ ہے، ڈی آئی جی سکھر فدا مستوئی کہتے ہیں کہ جعلی نکاح نامے پر موجود انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کے بعد ہی ملزمان پر جعل سازی کا مقدمہ درج ہو گا، جبکہ مرکزی ملزم تو پہلے ہی عدالت سے ضمانت پر ہے اس لیے اس کی گرفتاری ممکن نہیں۔

تازہ ترین