کوئٹہ سیف سٹی منصوبہ 2004 سے تاخیر کا شکار ہے، اس دوران تین وزرائے اعلیٰ اور 10 آئی جی پولیس بدل گئے، منصوبے کی لاگت ڈھائی ارب سے بڑھ کر چار ارب روپے تک پہنچ گئی، لیکن اب تک منصوبے پر صرف پانچ فیصد عملدرآمد ہوسکا ہے۔
صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی لپیٹ میں ہے۔ ان واقعات کے تدارک کے لیے 2004 میں اس وقت کے وزیراعلیٰ جام محمد یوسف کی حکومت نے کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ کی منظوری دی۔
جس کے تحت شہر میں 1459سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کی جانا تھی جس کا مقصد دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں کی روک تھام، ٹریفک کے نظام میں بہتری اور اسٹریٹ کرائمز کا تدارک شامل تھا، لیکن اسے نااہلی کہیں، عدم دلچسپی یا غفلت کہ 16 سال بعد بھی اس منصوبے پر قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوسکی۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک صرف 75 کیمروں کی تنصیب ہوسکی ہے، اس دوران صوبے میں تین وزرائے اعلیٰ اور دس آئی جی پولیس تبدیل ہوگئے۔
دوسری جانب حکام ہیں کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے تاریخ پر تاریخ دیے جارہے ہیں۔