دوسری بار بھی عیدالاضحیٰ کے موقع پر کوئی پاکستانی فلم سینما گھروں میں ریلیز نہیں ہوگی جب کہ ماضی میں عیدین کے موقع پر شاندار فلم فیسٹیول ہوا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلی عیدالاضحیٰ 24اکتوبر 1947 بروز جمعۃ المبارک مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی تھی۔ اس وقت نوزائیدہ مملکت کی فلم نگری اپنے قدم جمانے میں مصروف تھی اور تاریخی شہر لاہور کے بعض فلم اسٹوڈیوز میں مقامی سطح پر چند ایک فلمیں بننا شروع ہوئی تھیں۔
عوام کی تفریح کا واحد فلم بینی تھی، اس عیدالاضحیٰ پر سنیما گھروں میں دکھائی جانے والی ہندی فلمیں ہی تھیںؒ۔ فلمی محققین اور مورخین کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق بڑی عید پر ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فلم پنجابی زبان کی ’’شمی‘‘ تھی، جو برصغیر کے معروف ہدایت کار منشی دل (اصل نام منشی عبدالعزیز) کی پاکستان ہجرت کرنے کے بعد پہلی فلم تھی۔ ’’شمی‘‘ 24ستمبر 1950 بروز اتوار صرف لاہور کے سنیما گھروں کی زینت بنی۔
نامور مغنیہ ملکہ پکھراج کے شوہر شبیر حسین شاہ کی بہ طور فلم ساز اس فلم میں سنتوش کمار، شمی، ایم اجمل، شعلہ، غلام محمد شامل تھے۔ نامور موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی دل کش موسیقی سے سجی فلم ’’شمی‘‘ کے گیتوں نے بڑی عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا۔ بالخصوص نغمہ نگار طفیل ہوشیار پُوری کا تحریر کردہ گیت عنایت حسین بھٹی نے بڑے رچائو سے گایا۔ ’’اک وادی آجا سانوں مکھڑ وکھا جا سو ہے چوڑے والینے۔
بڑی عید پر ریلیز ہونے والی پہلی اردو فلم ’’محبوبہ‘‘ تھی۔ یہ فلم 21اگست 1953 بروز جمعتہ المبارک سنیماز کی زینت بنی۔ اس کے فلم ساز شریف ملک، ہدایت کار لقمان اور موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ ’’محبوبہ‘‘ کی کاسٹ میں شامل سنتوش کمار، شمی، درپن، ایس سلیمان، اکمل، ایم اسماعیل، ایم اجمل، شعلہ، آشا پوسلے، نذر اور علائو الدین نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ماسٹر عنایت حسین کو بڑی عید پر ریلیز ابتدائی دونوں فلموں کے موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ فلم ’’محبوبہ‘‘ کے اس دوگانے کو عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی کسی بھی فلم کا پہلا دل کش اور مقبول دوگانے بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوگانے کو قتیل شفائی نے لکھا اور گلوکار فضل حسین اور گلوکارہ منور سلطانہ نے بڑی عمدگی سے گایا۔ ’’محبت مسکرائی جُھوم اٹھی ہرشے جوانی میں‘‘کسی کا نام شامل ہوگیا میری کہانی میں۔
یاد رہے کہ یہ دوگانا پہلے سال 1953 ہی کی فلم ’’آغوش‘‘ کے لیے ریکارڈ ہوا تھا اور اس کا ریکارڈ بھی اس فلم کے نام سے بنا تھا۔ بعدازاں اس دوگانے کو ’’محبوبہ‘‘ میں شامل کیا گیا۔ ’’محبوبہ‘‘ کے حوالے سے سنتوش کمار کو عیدالاضحیٰ پر ریلیز پہلی اردو فلم کے ہیرو بننے کا بھی منفرد اعزاز پاگئے اور اداکارہ شمی بھی اس اعزاز کی مالکہ بنیں۔ فلم ’’محبوبہ‘‘ میں تین بھائیوں سنتوش کمار، درپن اور ایس سلیمان اور دو بھائیوں ایم اجمل اور اکمل کو اکٹھا کام کرنے کا موقع ملا۔ 10اگست 1954 بروز پیر عیدالاضحیٰ پر فلم ساز سی آر گولانی، ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد (وحید الدین ضیاء الدین احمد)اور موسیقار رشید عطرے کی منفرد کہانی پر مبنی فلم ’’رومی‘‘ پردہ سیمیں کی زینت بنی۔
بہ طور ہدایت کار و مصنف ’’رومی‘‘ ڈبلیو زید احمد کی پاکستان میں پہلی کاوش تھی۔ قیامِ پاکستان سے قبل وہ انڈیا کے شیر پونا میں شالیمار اسٹوڈیو کے مالک تھے اور اپنے فلم ساز بینرتلے انہوں نے فلم ایک رات، پریم سنگیت، من کی جیت، پرتھوی راج سنجوگیتا اور میرابائی بنا چکے تھے۔ انہوں نے فلم ’’روحی‘‘ کوآپریٹو بینک لمیٹڈ سے قرض لے کر بنائی تھی۔ فلم میں شمی، سنتوش کمار، ہمالیہ والا، مجید اور ساحرہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ ’’روحی‘‘ کو اپنی ریلیز کے فوراً بعد ہی نقصان اٹھانے پڑے، پہلا دھچکا تو یہ لگا کہ اس کی کہانی کے بعض حصوں پر سینسر بورڈ نے اعتراضات اٹھائے اور خاصی قطع و برید کے بعد اکیس جنوری 1955 کو دوبارہ نمائش کی اجازت دی گئی۔
فلم کو دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ابھی اس فلم کی نمائش جاری ہی تھی کہ کوآپریٹو بینک لمیٹڈ نے قرضہ واپس نہ ملنے کی وجہ سے ’’روحی‘‘ اپنے قبضے میں لے لی تھی، یُوں جب سے ’’روحی‘‘ غالباً اب تک ڈبوں میں بند پڑی ہے۔ یہ فلم فنی لحاظ سے ایک شاہ کار فلم تھی اور شاید اسی لیے اس کے اشتہار میں یہ لکھا بھی گیا۔’’اس فلم کو پبلیسٹی کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
’’روحی‘‘ میں کل دس گیت شامل تھے، جن میں سات گیت ریڈیو پاکستان کراچی کی اسٹاف گلوکارہ نجم آرا نے گائے۔ یہ ان کی بہ طور پلے بیک سنگر پہلی اور آخری فلم تھی۔ نجم آرا خیر سے حیات ہیں اور کراچی ہی میں سکونت پذیر ہیں۔ یہ بھی خُوب حسن اتفاق ہے کہ ڈبلیو زیڈ احمد کی دوسری فلم ’’وعدہ‘‘ جو دو مئی 1957 کی عیدالفطر پر ریلیز ہوئی۔
اس میں بھی موسیقار رشید عطرے نے اک اور دو دوگانے کوثر پروین کے ہمراہ گائے۔ ’’وعدہ‘‘ بھی شرافت علی کی پہلی اور آخری فلم بہ طور پلے بیک سنگر ثابت ہوئی۔ یہ بھی کیا حسن اتفاق ہے کہ سال 1950 سال 1953 اور سال 1954 کی عیدالاضیٰ پر ریلیز تینوں فلموں کے ہیرو سنتوش کمار اور ہیروئن شمی تھیں۔ انہیں جولائی1956 بروز جمعرات عیدالاضحیٰ کے مبارک دن فلم ساز عید محمد، ہدایت کار اسلم ایرانی اور موسیقار نذیر جعفری کی فلم ’’پوں ریلیز ہوئی تھی۔
اداکارہ شمی اس فلم کی بھی ہیروئن تھیں، لیکن اس فلم میں لالہ سدھیر ان کے مقابل ہیرو تھے۔ دیگر کاسٹ میں ظریف، ناذر، آشا پوسلے شامل ہیں۔ نغمہ نگار مبشر کاظمی کے لکھے اس گیت کو کوثر پروین نے خوب گایا۔’’چاند کو چھونے نکلے تھے ہم آس کا دِیا جلا کے‘‘۔ اس گیت کے علاوہ قتیل شفائی کے لکھے اس کورس گیت کو بھی کوثر پروین نے مزاحیہ اداکار ظریف اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر گایا۔ یہ کورس گیت ظریف نے سولو بھی فلم کے لیے گایا۔’’ہری بھری ہری بھری ہم کہہ دیتے ہیں کھری کھری‘‘۔
10جولائی 1957 کی عیدالاضحیٰ بدھ کے دن ائی تھی۔ اس دن کمال پکچرز کی فلم ’’باپ کا گناہ‘‘ ریلیز ہوئی، جسے جعفر ملک نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ موسیقی رشید عطرے نے دی تھی۔ یہ فلم انور کمال پاشا کی بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’دو آنسو‘‘ (ریلیز سات اپریل 1950ء) کا ری میک تھی۔ اس فلم کی کاسٹ میں درپن، مسرت نذیر، نیر سلطانہ، نیلو، رخشی، آصف جاہ شامل تھے۔
فلم ’’شمی‘‘ کے بعد عیدالاضحیٰ کا تحفہ بننے والی دوسری پنجابی فلم ’’مکھڑا‘‘ تھی۔ 29جون 1958 بروز اتوار دو اردو فلمں ’’رخسانہ‘‘ اور ’’توحید‘‘ کے مقابلے میں فلم ساز میاں احسان الحق، ہدایت کار جعفر ملک اور موسیقار رشید عطرے کی نغمہ بار فلم ’’مکھڑا‘‘ اپنی کہانی اور گیتوں کی وجہ سے بے حد پسند کی گئی اور لاہور سرکٹ کے ساتھ ساتھ اس فلم نے کراچی سرکٹ میں بھی خاطر خواہ بزنس کیا۔ اس تفریحی رومانی، نغماتی فلم کی کاسٹ میں صبیحہ خانم، سنتوش کمار، آشا پوسلے، نذر، علائو الدین، غلام محمد اور جی این بٹ شامل تھے۔
رومانوی فلم میں موسیقی بھی اگر غیر معمولی ہو تو ہمیشہ پسند کی جائے گی اور یہی سبب کچھ ’’مکھڑا‘‘ کی کام یابی کا تھا۔ رشید عطرے کی موزوں کردہ دُھنوں کے ضمن میں تمام تر گیت سچوئیشن، معنویت اور شعریت کے اعتبار سے خوب اور لاجواب تھے۔ فلم ’’مکھڑا‘‘ جعفر ملک کی پہلی پنجابی فلم تھی۔ وہ انور کمال پاشا کے یونٹ میں ان کے معاون اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ وارث لدھیانوی نے مکھڑا کے لیے بے حد معیاری گیت لکھے۔ اٹھارہ جون 1959 کی عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی فلمیں راز، ناگن، سویرا اور کرتار سنگھ خصوصی اہمیت کی حامل فلمیں رہیں۔
فلم ساز و ہدایت کار ہمایوں مرزا کی فلم ’’راز‘‘ کو پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم کہا جاتا ہے۔ فلم کے موسیقار فیروز نظامی نے بھارت کی معروف شخصیت مبارک بیگم سے تین سولو اور ایک دوگانا احمد رشدی کے ہمراہ گوایا تھا۔ ان کے علاوہ زبیدہ خانم نے کلیم عثمانی کے لکھے اس گیت کو بے حد رچائو کے ساتھ گایا تھا۔’’میٹھی میٹھی بتیوں سے جیانہ جلا، جارے بلم تجھے دیکھ لیا’’ ’’اے زندگی رلائے جا، قصہ نم سنائے جا (مبارک بیگم، شاعر کلیم عثمانی)۔مان جمان زمانہ ہے جواں او سن سن (مبارک بیگم، احمد رشدی، شاعر طفیل احمد جمالی)۔
فلم ’’ناگن‘‘ سانپوں کے موضوع پر بننے والی پہلی دھارمک ملبوساتی فلم تھی اور خلیل قیصر کی بہ طور ڈائریکٹر پہلی اردو فلم بھی ہے۔ اس کے فلم ساز وزیر علی کے چھوٹے بھائی رتن کمار تھے، جن کا اصل نام نذیر علی تھا، ان کی بہ طور ہیرو ’’ناگن‘‘ پہلی فلم تھی۔ خلیل قیصر کی ڈائریکشن اس قدر موثر تھیں کہ نگار ایوارڈ جیوری نے سال 1959 کے لیے انہیں بہترین ڈائریکٹر کا نگار ایوارڈ تفویض کیا۔ موسیقار صفدر حسین کی دل کش موسیقی اس فلم کا اہم عنصر ثابت ہوئی۔ قتیل شفائی کی عمدہ شاعری سے آراستہ اکثر گیت مقبول عام ہوئے۔
فلم ’’سویرا‘‘، راز، ناگن اور کرتار سنگھ کے مقابلے میں بہت نرم گئی، فلم ساز ممنون حسین، ڈائریکٹر رفیق رضوی اور موسیقار ماسٹر منظور حسین کی ’’سویرا‘‘ میں کمال، شمیم آرا، رخسانہ، سکندر اور لہری نمایاں تھے۔ فلم راز اور سویرا دونوں میں شمیم آرا ہیروئن تھی اور عیدالاضحیٰ پر ریلیز ان کی دو ابتدائی فلمیں تھیں اور سید کمال کی بھی فلم ’’سویرا‘‘ عیدالاضحیٰ پر ریلیز پہلی فلم تھی۔ ان پر ’’سویرا‘‘ پر پکچرائز نغمہ بے حد ہٹ ثابت ہوا۔ تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے۔‘‘۔ گلوکار ایس بی جان نے فیاض ہاشمی کے تحریر کردہ اس نغمے کو بڑی محویت کے ساتھ گایا۔
یہ قیام پاکستان کے بعد اب تک کی عیدالاضحیٰ (1959) پر ریلیز فلموں میں شامل پہلا سولو گانا تھا،جسے بے پناہ مقبلیت حاصل ہوئی۔ قیام پاکستان کے پس منظر میں بننے والی واحد پنجابی فلم ’’کرتار سنگھ‘‘ کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی، جس میں سکھ کرداروں کو پیش کیا گیا۔ فلم ساز و ہدایت کار و مصنف سیف الدین سیف کی اس یادگار شاہکار فلم میں1947 کے دور کی ایسی شان دار عکاسی کی گئی ہے کہ جسے دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ ’’کرتارسنگھ‘‘ کے کردار میں عوامی اداکار علائو الدین نے کمال کی کردار نگاری کی۔ موسیقاروں کی جوڑی سلیم اقبال نے بے حد مسحورکن موسیقی سے اس فلم کو سجانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ انہوں نے فلم کے تمام تر گیتوں کی دھنیں ایک سے بڑھ کر ایک موزوں کیں۔
۔گوری گوری چاندنی تے ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں نی، جی کرے چن دا میں منہ چم لاں نی (زبیدہ خانم)۔ پیریں بیٹریاں پازیباں دیا پا کے۔ ماہی نے تینوں لے جانا لے جانا نی (زبیدہ خانم، نسیم بیگم)۔دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا وے ویر میرا گھوڑی چڑھیا (نسیم بیگم و سکھیاں)۔آج سک گئی اے غماں والی شام، تینوں ساڈا پہلا سلام (عنایت حسین بھٹی، علی بخش ظہور و ساتھی)۔