• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہل تشیع نے ایک بہت صائب طریقۂ تدفین قائم کیا ہوا ہے۔ وہ میت کو امام بارگاہ میں لے جاتے ہیں۔ سارے فرض ادا کر کے تدفین تک کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ سوگوار خاندان جن کے گھروں میں گنجائش بھی نہیں ہوتی اور دیگر حضرات سب کے لئے یکساں اصول ہیں جب کہ اہل سنت نے سوائے پاکستان کے زیادہ تر ممالک میں انگریزوں کی طرح فیونرل ہومز بنائے ہوئے ہیں۔ سوگوار خاندان کو کفن سلوانے، نہلانے اور تدفین کی دیگر ذمہ داریاں ادا نہیں کرنی پڑتیں۔ اخراجات گو ہر جگہ ہوتے ہیں اور ادائیگی بھی ہوتی ہے۔ مگر مرحوم کو چھوڑ کر بھاگا دوڑی نہیں ہوتی ۔اب لاہور ہائی کورٹ کو خیال آگیا کہ یہخدمات تو علاقےکی میونسپل کمیٹی کو فری آف کاسٹ فراہم کرنی چاہئیں۔ اگر پورے ملک میں یہ قانون عوام کے تعاون سے نافذ ہو جائے تو کم از کم یہ اذیت نہ ہو کہ قبر کھودنے کے پیسے کتنے ہوںگے۔ نہلانے کے کتنے اور پھر دفنانے کے کتنے کہ مجموعی پونجی ہزاروں میں ہوتی ہے۔ عمومی طور پر محلہ دار اور صاحبِ حیثیت بلا تخصیص مدد تو کرتےہیں۔ لیکن میونسپل کمیٹیاں بلا حیل وحجت یہ فرض سر انجام دیں تو پاکستان کے بیشتر غربا کے کفن باتوقیر ہو جائیں۔

فرض کر رہی ہوں اگر احساس پروگرام کا ایک شعبہ یہ مخصوص ذمہ داری لے اور وہ پیسہ جو مفت کھانا فراہم کرنے میں صرف ہو رہا ہے، وہ ہمارے ایسے لمحات کی پردہ پوشی کے لئے کام آسکتا ہے ۔حکومت کی تدبیر، کوئی بھوکا نہ رہے، بظاہر سماجی فلاح کا راستہ ہے مگر دور بین نظروں میں پرانی کہاوت کام کرتی نظر آتی ہے۔ کھایا پیاکھسکے میاں یار کس کے۔

مزارات سے حاصل شدہ عطیات کو بھی فلاحی تکنیکی ادارے قائم کرنے کے لئے اور غریب بچوں کو تعلیم اور تکنیک، دونوں فراہم کرنے کے اقدامات ہی غربت ختم کرنےکی ابتدائی تدبیر ہو سکتے ہیں۔ ویسے توہمیں آج کل چین بہت یاد آرہا ہے۔ ذرا ان کے طرزِ تعلیم کو سامنے رکھیں، ہم اگر ابتدائی کلاسوں میں سعدی کی حکایات، علامہ اقبال کے اشعار اور قائد اعظم کی تقاریریں شامل کریں تو وہ ذہنی طور پر بہترانسان بن کر بڑے ہونگے اور فنی تعلیم سو نے پہ سہاگہ۔

1967 میں خدا بخش بچہ، وزیر زراعت پاکستان تھے تو گویا آج کل کے فخر امام تھے، مگر کسان کانفرنس میں کوئی چیمہ صاحب کسانوں کے بارے میں بول رہے تھے۔ بچہ صاحب نے 1967 میں گندم میں خود کفیل ہونےکی نوید سنائی تھی۔ اب 60برس بعد بھی یہی دہرایا گیا، البتہ وزیر اعظم نے ایک پتے کی بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں 12 موسم 12 بارہ مہینوں میں ہوتے ہیں۔ واقعی پھلوں اور فصلوں کے بونے اور کاٹنے کی سائیکل کو موسم کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کریں تو مغربی پھول، اواکیڈو ،زعفران کے علاوہ بلوچستان میںاجڑے بادام اور چلغوزے کے باغوں کو بہار میں بدل سکتے ہیں۔ ہم نے اب تک کیا کیاہے۔ مکئی کی روٹی اور ساگ کو فیشن بنا دیا ہے۔ ہمارے یہاں جوار، باجرے کی بہت بھاری فصل ہوتی ہے۔ نہ ڈاکٹر بولتے ہیں اور نہ روز مغربی کھانے ،وہ بھی مرغی کے ساتھ بنانے والی خواتین بتاتی ہیں کہ جوار اور باجرہ ملا کر آٹا گوندھا جائے تو شوگر کے مریضوں کے لئے بہت فائدہ مند ہے۔ اسی طرح بسکٹ بنانے والی فیکٹریاں باجرے کے آٹے کے تلوں لگے بسکٹ بنا کر پیش کریں تو قوم ، کسان اور فیکٹریوں کو نئے مارکیٹ میسر آ جائے گی۔ اسی طرح مکئی بہت ہوتی ہے۔ اس کی بھی ناشتے اور شام کی چائے کے لئے پاپ کارن کے علاوہ، اشیا بنا لیں تو قوم،بر گر کلچر سے واپس آجائے گی۔ مکئی کی مٹھائیاں بھی بن سکتی ہیںجیسے افریقہ میں بالعموم اور کینیا میں ہر شکل میں مکئی کھائی جاتی ہے۔ میکسیکن کھانوں میں بھی بھٹا باقاعدہ کھانے کا حصہ ہوتا ہے۔ ہم انڈیا کے ہمسائے (دشمن ہی سہی) ہیں۔ وہاں دوسا، عام بنایا جاتا ہے، پنیر ہر گائوں میں بنتا ہے، دہی بھی غریب کے کھانے میں شامل ہوتی ہے،ہر طرح کا لوبیا، خوراک کا حصہ ہے۔ ہمارےملک میں زور ہے توگوشت مرغی پر، اب تو یہ دونوں چیزیںقیمت میں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ ہمارے ملک میں مچھلی کی دیگر اقسام ، مشروم، لوبسٹر اور جھینگے اگر عام آدمی کی مالی حیثیت میں آسکیں تو آمدنی اور صحت دونوں پر اچھا اثر پڑے گا۔ ہمارے ملک میں پھل سڑ کر خراب ہو جاتے ہیں۔ مگر عوام کے کھانے میں شامل نہیں؟کون سکھائے گا۔ اسی طرح دنیا میں لہسن، ادرک اور ایلوویرا دوائیوں اور غذا کے علاوہ فیشنی کریموں میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ہم اگر رنگ گورا کرنے والی کریموں کی جگہ اصلی اور قدرتی اشیا کو استعمال کریں اور خوراک میں شامل کر لیں تو کیا برا ہو۔ پچھلے زمانے میں لوگ بیسن سے بھی سر دھوتے منہ پر پیسٹ لگاتے تھے،وہی واپس لائیں۔ ایلوویرا ہر گھر میں ہے، اس کے پتےکو معہ جیلی منہ پر لگائیں،جھریاں کم ہو جاتی ہیں۔ میری مغربی دوستیں عام طور پر منہ پہ ہفتے میں دو دن ضرور لگاتی ہیں۔ چاروں مغز اور ہر طرح کے بیج سارے ملکوں میں دودھ کے ساتھ یا دہی کے ساتھ ناشتے میں استعمال ہوتے ہیں۔ کون سکھائے کہ ہمارے میڈیا پہ ہر وقت مرغی استعمال ہو رہی ہوتی ہے یا مغربی کھانے جیسے پاستا۔

اب ڈیزائنرکپڑوں سے تنگ آکرکم قیمت کپڑے بنانے کے لئے کچھ خواتین و حضرات نے حوصلہ کیا ہے۔ اسی طرح چھپ چھپا کے کچھ لڑکیاں ایک رات کے استعمال شدہ کپڑوں کو بھی بیچ رہی ہیں۔ اسی طرح اگر ہماری بیگمات بھی اپنے پرانے یا ایک دفعہ کے پہنے ہوئے کپڑے بازار میں لے آئیں تو لنڈے کے مال کا تصور کم ہو جائے گا۔ یاد دلائوں ہم لوگ بھی توڈالڈا گھی کا ڈبہ، کسی تھیلےمیں چھپا کر لاتے تھے۔ اب وہی سرعام ہر گھر میں ہے۔حالانکہ سرسوں کے تیل کے استعمال کے لئے اب تو ڈاکٹر بھی کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح گرمیوں میں املی اور آلو بخارے کا شربت اور شکر کےساتھ ستو پیئے جائیں تو شاید گرمی کا زور ٹوٹتا دکھائی دے۔

آپ کہیںگے کہ ادب اور سوشل معاملات پر لکھنےوالی ڈپٹی نذیر کی ہیروئن بنی ہوئی ہے مگر مہنگائی سب کچھ سکھا دیتی ہے۔

تازہ ترین