عوام کی جان و مال کا تحفط حکومت اور پولیس کی اولین ذمہ داری ہے اور کسی بھی معاشرے ملک یا علاقے میں امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنے اور جرائم کی سرکوبی پولیس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ سندھ میں پولیس کی گرفت ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آج بھی کمزور دکھائی دیتی ہے، سوائے ان چند اضلاع کے جہاں سینئر پولیس افسران تعینات ہیں ۔ یہ صورت حال پولیس کی کارگردگی پر سوالیہ نشان تھا اور ہے، کہا جاتا ہے کہ "پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی" یہ آفیشل سلوگن ہے یا نہیں اس بحث کو چھوڑ کر آگے چلتے ہیں کہ کیا اس پولیس سلوگن کے تحت پولیس عوام کی مدد کررہی ہے؟
سندھ کا تیسرا بڑا اہم تجارتی شہر سکھر جو کہ پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے منتخب ہونے والے چار میں سے تین اراکین اسمبلی صوبائی وزیر ہیں، اس کے باوجود امن و امان کی اتنی ابتر صورتحال کہ اس وقت یہ اہم تجارتی شہر ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کے نشانے پر آگیا ہے اور جو تنقید اپوزیشن پولیس اور حکومت پر کرتی تھی آج سکھر کے تاجر رہنما بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہماری پولیس کسی اور کام میں مصروف رہتی ہے۔شہر سمیت ضلع بھر میں چوری ، ڈکیتی لوٹ مار کی پے درپے وارداتوں کے باعث صنعت کاروں، تاجروں اور عوام میں جو بے چینی کی کیفیت آج ہے وہ پہلے نہیں دیکھی گئی۔
تجارتی ، سیاسی، مذہبی، سماجی سمیت تمام تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ر ممتاز عالم دین مرکزی اللہ والی مسجد کے خطیب مفتی عبدالباری نے اپنے خطاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور پولیس کی ناکامی پر یہاں تک کہہ دیا کہ ایسا لگتا ہے جیسے سکھر میں ڈاکو راج قائم ہوگیا ہے۔ اگر ہم سیاسی شخصیات پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ جو دو سال سے نیب کی قید میں ہیں اور ان کے پابند سلاسل ہونے کے بعد جس تیزی سے جرائم کا گراف بڑھا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی کیونکہ سید خورشید شاہ عوام سے رابطے میں رہنے کے ساتھ عوام کے مسائل خاص طور پر جرائم کی وارداتوں کا فوری نوٹس لیتے تھے اور منتخب رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے متعلقہ افسران سے باز پرس کرتے تھے اور ہر ہفتے دو تین روز عوام سے ملتے تھے۔
لیکن ان کے پابند سلاسل ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام نےشاید سارے ووٹ سید خورشید احمد شاہ کو ہی دیئے تھے اور تجارتی عوامی حلقوں میں بھی اب سید خورشید شاہ کے پابند سلاسل ہونے کے باعث عوام سے دوری شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ شہر میں جرائم کے تیزی سے بڑھتے ہوئے واقعات پر،وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اپوزیشن تو بلند و بانگ یہ بات کہتی ہے کہ سندھ پولیس سیاسی دباو کا شکار ہے۔
یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ جب وزیر اعلی اور آئی جی سندھ نے شکارپور میں بدامنی کا نوٹس لیا تو صرف ایک ماہ میں شکارپور ضلع میںجرائم کا گراف 50 سے 70 فیصد نیچے آگیا۔ اس سے پہلے کشمور کا نوٹس لیا تو وہاں بھی مثالی امن قائم ہوا تھا،حالانکہ ان اضلاع میں قبائلی تنازعات عروج پر ہیں لیکن جرائم کا کم ہونا، پولیس کی بہتر کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا ان اضلاع کے ایس ایس پیز کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے؟
یہ دیکھنا پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت اور آئی جی کا کام ہے۔، سکھر ریجن پولیس کے دو رینج پر مشتمل ہے لاڑکانہ رینج جو بدامنی کی لپیٹ میں تھا وہ مثالی امن کی طرف جارہا ہے جس کی کمانڈ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ کررہے ہیں اور ایک ماہ میں انہوں نے امن امان کے قیام کے حوالے سے غیر یقینی نتائج دیئے ہیں۔ سکھر رینج جہاں ایڈیشنل آئی جی کا دفتر بھی موجود ہے لیکن اس ہیڈ کوارٹر ضلع اور رینج کی حیثیت رکھنے والے سکھر شہر میں اب ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر پر پولیس کی گرفت کمزور ہونے سے ڈاکوؤں کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں، اور لوٹ مار کرنے والے گروہ نے تاجروں کو نشانے پر رکھ لیا ہے، پہلے ڈاکو شہری علاقوں میں ڈکیتی کے لئے پستول کا استعمال کرتے تھے ، اب کلاشنکوف بردار ڈاکوئوں نے تاجروں میں خوف کی فضا قائم کردی ہے۔
گذشتہ دنوں مسلح ملزمان ،شہر کی اہم شاہراہ بندر روڈ پر مشروب فروش کی دکان سے 2 لاکھ روپے سے زائد نقدی، لیپ ٹاپ، تین موبائل فونز پرس و دیگر سامان لوٹ کر فرار ہوگئے۔ ڈاکو کلاشنکوف ہاتھوں میں اٹھائے دیدہ دلیری سے دندناتے رہے، سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آنے کے باوجود پولیس ملزمان کی گرفتاری میں ناکام ہے۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ 4 نامعلوم مسلح افراد نے رات گئے مشروب فروش کی دکان میں گھس کر اسلحے کے زور پر مالک اور ملازمین کو یرغمال بنالیا اور لوٹ مار کے بعد فائرنگ کرتے ہوئے بآسانی فرار ہوگئے۔ معلوم ہوا ہے کہ واردات انجام دینے والے ملزمان دریا سے کشتی میں سوار ہوکر آئے تھے اور واردات انجام دینے کے بعد واپس کشتی میں سوار ہوکر فرار ہوگئے۔
اس سے قبل بھی کشتی میں سوار ہوکر آنے والے، ملزمان اشیائے خورونوش فروخت کرنے والےدکانداروں کو نشانہ بناچکے ہیں۔ شہری علاقوں میں لوٹ مار کے واقعات ماضی میں ہوتے رہے ،ان میں ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر عام طور پرپسٹل کا استعمال کرتے ہیں لیکن گزشتہ روز کلاشنکوف سے مسلح ڈاکوئوں نے شہر کی اہم شاہراہ بندر روڈ جس کی ایک سائیڈ دریا سندھ سے ملتی ہے اس اہم شاہراہ پر ڈاکوئوں نے ایک مشروب شاپ پر حملہ اور ہوائی فائرنگ کرکے خوف و ہراس پیدا کیا، جبکہ چند روز قبل بھی ڈاکووں نے بندر روڈ پر ہی ایک آئرن کے تاجر سے اسلحے کے زور پر 20 لاکھ روپے لوٹ لئے تھے۔میڈیسن مارکیٹ میں دکان کے تالے توڑ کر ہزاروں کی نقدی چوری کرلی گئی لاکھوں روپے مالیت کی گاڑیاں جن میں زیادہ تر موٹر سائیکلیں شامل ہیں، چھین لی گئیں یا چوری کرلی گئیں۔
تالے توڑ کر دکانوں سے نقدی اور سامان چرانا، مویشیوں کی چوری اور شہر کے ایک ڈاکٹر کے مبینہ اغوا ہونے والے بیٹے کو کئی روز گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں کرایا جاسکا۔موبائل فون اور پرس چوری ہونے اور چھینے جانے کے درجنوں واقعات پولیس میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے لیکن عید سے قبل جرائم کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات سے تاجروں، صنعت کاروں اور شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے خاص طور پر کلاشنکوف سے مسلح ڈاکوئوں کی اہم شاہراہ بندر روڈ پر ڈکیتی اور فائرنگ کے واقعہ کے بعد تاجروں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔آل سکھر اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹریز کے بانی حاجی محمد ہارون میمن کی قیادت میں تاجر تنظیموں کے رہنمائوں نے پولیس افسران سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں تاجروں نے شکایات کے انبار لگادیئے۔ ڈی آئی جی سکھر، فدا حسین مستوئی اور ایس ایس پی سکھر ،عرفان سموں کے سامنے تاجروں نے کہا کہ سکھر شہر جو کبھی امن و امان کا گہوارہ ہوا کرتا تھا آج بدامنی، لاقانونیت، لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، چھینا چھپٹی اور جرائم کی وارداتوں کی لپیٹ میں ہے ۔بندر روڈ پرحالیہ ڈکیتی ہوئی ہے جبکہ شہر بھر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے جگہ جگہ رکشہ اسٹینڈ کار اسٹینڈ، ویگن اسٹینڈ موٹر سائیکل اسٹینڈ اور خودساختہ پارکنگ ایریاز بن چکے ہیں مگر ہماری پولیس کسی اور کام میں مصروف رہتی ہے۔
پولیس افسران نے تاجروں کی تمام شکایات کو غور سے سنا اور کہا کہ جرائم پیشہ عناصر امن کے دشمن ہیں انہیں کسی صورت نہیں بخشا جائے گا۔ چوروں، ڈاکوؤں اور جرائم میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔تمام مسروقہ مال، نقدی اور دیگر سامان برآمد کرایاجائے گا۔غفلت کے مرتکب پولیس افسران اور اہلکاروں کو محکمہ جاتی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ پولیس افسران کا کہنا تھا کہ شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کریں اور پولیس کی مدد کریں، جرائم کا خاتمہ اور امن پولیس کی ذمہ داری ہے جسے ہر صورت پورا کریں گے۔ سکھر ایوان صنعت و تجارت کے صدر محمد دین، علی جبران، محمد عامر فاروقی اور اراکین مجلسِ انتظامیہ نے سکھر شہر میں ڈکیتی ، موٹر سائیکل چوری اور اسٹریٹ کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام سے نگرانی سخت کرنے اور پولیس کا گشت مزید بڑھانے کا مطالبہ کیا ۔
ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ چند دن پہلے رُکن ایوان آئرن اسٹوراور گزشتہ رات رُکن ایوان لمکا سینٹر پر ڈکیتی کی وارداتیں موجودہ صورتحال کی سنگینی کا احساس دلاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اراکین ایوان اور دیگر شہریوں کی چند دنوں میں متعدد موٹر سائیکلیں چوری ہوئی ہیں تا حال اُن کی ریکوری ابھی تک نہیں ہوسکی، سکھر شہر میں امن و امان کی صورتحال مثالی ہونی چاہیے جس کی طرف ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔ صدر ایوان محمد دین نے کہا کہ تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں میں ایسے واقعات کاروبار میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں ۔شر پسند عناصر کے خلاف فی الفور کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ کاروباری سرگرمیاں بلا خوف پُرامن ماحول میں جاری رہ سکیں۔
پولیس اور انتظامیہ تاجر برادری سمیت تمام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ایسے اقدامات کرے ،جس سے چوری ، ڈکیتی کی وارداتیں ختم ہوسکیں، جبکہ سکھر اسمال ٹریڈرز کے صدر حاجی محمد جاوید میمن نے شہر میں بڑھتی ہوئی چوری، ڈکیتی، موٹر سائیکل کی چوری، لوٹ مار کی وارداتوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے آئے روز شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باعث تاجروں اور شہریوں میں شدید خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے، کوئی دن خالی نہیں جس دن شہر میں چوری، ڈکیتی یا لوٹ مار کی واردات نہ ہوئی ہو جس کے باعث تاجر برادری اور شہری خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ حکومت اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران سکھر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کا نوٹس لے کرامن و امان کے قیام کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھائیں۔
وہ تاجر سیکریٹریٹ میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تاجروں کے وفد سے بات چیت کررہے تھے۔ اس موقع پر حاجی غلام شبیر بھٹو، حاجی عبدالستار راجپوت، عبدالقادر شیوانی، محمد زبیر قریشی، حافظ محمد شریف ڈاڈا، بابو فاروقی، رئیس قریشی، ظہیر حسین بھٹی، عبدالباری انصاری، احسان بندھانی، لالہ محب، عارف بھٹی، اعظم خان، ڈاکٹر سعید اعوان، امداد جھنڈیر، محبوب صدیقی، محمد راشد، طارق علی میرانی، معراج وارثی و دیگر بھی موجود تھے۔ حاجی محمد جاوید میمن و دیگر تاجروں رہنماوں نے کہا کہ محکمہ پولیس جرائم پیشہ عناصر کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے، جرائم پیشہ عناصر سرے عام تاجروں اور شہریوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں بڑھتی ہوئی موٹر سائیکل چوری، لوٹ مار کی وارداتوں کے باعث تاجر اور شہری شدید خوف میں مبتلا ہیں، جرائم پیشہ عناصر نے پولیس کی رٹ کو چیلنج کر کے رکھ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی وارداتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے شہر کے تجارتی مراکز اور رہائشی علاقوں میں پولیس کے گشت میں اضافہ کیا جائے اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر پولیس چوکیاں قائم کر کے جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے اور امن و امان کے قیام اور تاجروں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے ٹھوس و موثر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ تاجروں اور شہریوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔
ضلع میں امن و امان کی خراب صورتحال پر جمعیت علماء اسلام کی جانب سے بھی تعلقہ سطعوں پر ضلع جنرل سیکرٹری مولانا محمد صالح انڈھر کی قیادت میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے مولانا محمد صالح انڈھر کا کہنا ہے کہ شہر سمیت ضلع بھر میں روز بروز امن و امان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے یہاں کے منتخب نمائندوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ہم اس صورتحال میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور جب تک شہر سمیت ضلع بھر کا امن و امان بحال نہیں کیا جاتا احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا، جبکہ امن امان کی خراب صورتحال پر مختلف جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی گئیں۔
دوسری جانب پولیس نے متعدد مبینہ مقابلوں میں کئی ڈاکووں کو زخمی حالت میں گرفتار کیا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس ترجمان کی جانب سے چند ماہ قبل تک روزانہ کی بنیاد پر پولیس کی جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کاروائیوں کی خبر جاری کی تھی جس میں بڑی حد تک کمی آئی ہے؟ شہری تجارتی اور عوامی حلقوں نے پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ سے سکھر میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لیتے ہوئے قیام امن کو یقینی بنانے عوام کی جان و مال کے تحفظ اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات لینے کا مطالبہ کیا ہے۔