• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتما م دنیا بَھر میں ہر سال28جولائی کو ’’ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، تاکہ عوام الّناس میں ہر سطح تک شعور و آگاہی عام کی جاسکے۔ اس مقصد کے لیے ہر سال ایک تھیم کا انتخاب کیاجاتا ہے اور اِمسال کاتھیم "Can't Wait" ہے۔ یعنی انتظار نہیں کرسکتے۔ دراصل ہمارے یہاں ہی نہیں، دیگر متعدّد مُمالک میں بھی ہیپاٹائٹس کی ابتدائی علامات نظر انداز کردی جاتی ہیں اور جب مرض پیچیدہ صُورت اختیار کرتا ہے، تب ہی معالج سے رجوع کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دُنیا بَھر میں ہر سال ہیپاٹائٹس بی اور سی سے1.4ملین اموات ہوتی ہیں، جوایڈز، ملیریا اور ٹی بی جیسی متعدّد بیماریوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ جگر کے سرطان کے ہرتین کیسز میں سے دو کی وجہ ہیپاٹائٹس بی اور سی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پوری دُنیامیں 325ملین افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، جن میں 255ملین ہیپاٹائٹس بی اور70ملین ہیپاٹائٹس سی کے مریض شامل ہیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ صرف ہیپاٹائٹس بی کے10فی صد اور ہیپاٹائٹس سی کے 20فی صد مریض جانتے ہیں کہ وہ اس خوف ناک مرض کا شکار ہوچُکے ہیں ،جب کہ لگ بھگ290 ملین افراد کوعلم ہی نہیں ہوتاکہ وہ ہیپاٹائٹس کاشکار ہوچُکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ آگاہی کا فقدان اور اسکریننگ نہ کروانا ہے۔ اس لیے اس مرض کو بھی دیگر کچھ امراض کی طرح "Silent Killer" یعنی خاموش قاتل کہا جاتا ہے۔ 

رواں برس یہ تھیم منتخب کرنے کا مقصد جہاں مرض سے متعلق معلومات عام کرنا ہے، وہیں عوام النّاس میں ہیپاٹائٹس کی اسکریننگ کا رجحان پیدا کرنا بھی ہے۔ یاد رہے، پاکستان میں ہر پندرہ منٹ میں ایک موت ہیپاٹائٹس یا اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوتی ہے، جو باعثِ تشویش ہے۔ ہیپاٹائٹس کی وبا کا شکار زیادہ تر پس ماندہ آبادی کے افراد بنتے ہیں اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو اپنی عام بیماریوں کا علاج انجیکشن کے ذریعے کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

حالاں کہ جدید مُمالک میں علاج کے یہ طریقے تقریباً مسترد ہو چُکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اوسطاً ہر فرد سالانہ10انجیکشنز لگواتا ہے،جن میں تقریباً 9انجیکشنز غیر ضروری ہوتے ہیں اور ان میں سے بیش تر انجیکشنز کی تیاری اور لگانے کے دوران اسٹرلائیزیشن کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بعض اوقات دوسرے مریض کی استعمال شدہ سرنج یا سوئی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر استعمال کر لی جاتی ہے، جب کہ انجیکشن لگانے سے قبل ہاتھ دھونے، انجیکشن کا سامان رکھنے والی ٹِرے کی صفائی اور دستانے تبدیل کرنے کا بھی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ 

پھر ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی ایک اور بنیادی وجہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں اتائی دندان ساز ہیں، جو ایک مریض کے استعمال شدہ طبّی آلات دوسرے مریض پر استعمال کرتے ہیں۔ نیز، نشہ آور اشیاء کا استعمال اور جنسی بے راہ روی بھی مرض کی منتقلی کی وجوہ ہیں۔ واضح رہے، تارکینِ وطن اور ایڈز کے مریضوں میں ہیپاٹائٹس کی شرح بُلند ہے۔

ہیپاٹائٹس کا مرض بچّوں کو بھی اپنا نشانہ بناتا ہے۔اگر کوئی نوزائیدہ بچّہ ایک سال کی عُمر کے دوران ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہوجائے، تواس بات کا 90فی صد امکان پایا جاتا ہے کہ وہ تاعُمر اِسی عارضے میں مبتلا رہے۔ہمارے یہاں دورانِ زچگی اور بعد میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں۔پھریہ امر بھی قابلِ افسوس ہے کہ کئی اسپتالوں، کلینکس وغیرہ میں حاملہ خواتین کا ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا ہے، حالاں کہ اگر حمل کے دوران ہی ہیپاٹائٹس بی تشخیص ہوجائے اورحاملہ میں ہیپاٹائٹس بی کےوائرس کی تعداد بھی زیادہ ہو، توفوری طور پر علاج شروع کرنا ضروری ہوتا ہے اوربعد از زچگی نومولود کو پہلے ہی دِن ہیپاٹائٹس کی ویکسین لگا ئی جاتی ہے۔ ویسے تو ہرنومولود کے لیے پیدایش کے پہلے دِن ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی نیشن ضروری ہوتی ہے کہ ہیپاٹائٹس بی، ایڈز سے بھی دُگنا متعدّی مرض ہے۔

پاکستان میں چین کے بعد ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی5فی صد آبادی ہیپاٹائٹس سی اور2.5فی صد ہیپاٹائٹس بی سے متاثر ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی دونوں فوری اور دائمی ہیپاٹائٹس کا سبب بن سکتے ہیں۔ دائمی ہیپاٹائٹس کی پیچیدگیوں میں خون کی قے، بار بار بے ہوشی طاری ہونا، پیٹ میں پانی بَھر جانا، گُردوں کا فیل ہونا اور جگر کا سرطان وغیرہ شامل ہیں۔ فی الحال، ہیپاٹائٹس سی کی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوسکی ہے، البتہ ایسی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کے بروقت استعمال سے ہیپاٹائٹس سی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ 

ہیپائٹس بی کے علاج کے لیے بھی مؤثر ادویہ موجود ہیں، جن سے اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔لیکن چاہے ہیپاٹائٹس بی ہو یا سی اس کےموّثر اور کام یاب علاج کے لیے بروقت تشخیص بہت ضروری ہے۔ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص کے لیے ایک مخصوص ٹیسٹ HBsAgتجویز کیا جاتا ہے، جب کہ ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص دومراحل میں کی جاتی ہے۔اینٹی-ایچ سی وی (Anti-HCV)ٹیسٹ اُن افراد کی نشان دہی کرتا ہے،جو ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہوچُکے ہوں،جب کہ ایچ سی وی آر این اے(HCV-RNA)سے اُن افراد کا پتا چلتا ہے ،جن کے اندر ابھی تک وائرس موجود ہے، جو کہ تقریباً 80فی صداینٹی-ایچ سی وی ہی کے مریض ہوتےہیں۔

اگر بروقت تشخیص ہوجائے تو12سے24ہفتے کے علاج سے وائرس سی کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے مُمالک میں ویکسین، تشخیص، تعلیم وآگاہی اور علاج کے ذریعے4.5ملین افراد کی قبل از وقت اموات کو روکا جاسکتا ہےاور اگر ہیپاٹائٹس کے نئے کیسز میں90فی صد کمی لے آئیں، تو شرحِ اموات میں65فی صد کمی لائی جاسکتی ہے۔

بعض حلقوں میں یہ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ ہیپاٹائٹس کے خاتمے کی جدوجہد کو کوروناوائرس کی وبا کے اختتام تک ملتوی کیا جاسکتا ہے؟تو ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی پیچیدگیوں سے روزانہ مَرنے والوں کی تعداد تقریباً ایک سو ہے۔تو کیا ہم اس انتظار میں رہیں کہ کورونا وائرس کے وبائی ایّام ختم ہونے کے بعد ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ کروائیں یا اس کا علاج اُس وقت تک ملتوی رکھیں یا پھر ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین نہ لگوائیں؟ قطعاً نہیں۔ ہمیں مناسب ایس او پیز کے ساتھ اپنا اسکریننگ ٹیسٹ، علاج یا ہیپاٹائٹس کی ویکسی نیشن کروانی ہوگی۔ کورونا وائرس کے چیلنجزز کامقابلہ کرتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دُنیا بَھر میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی صُورت ایک خاموش قاتل موجود ہے، جس کی تشخیص کے لیے اسکرننگ ناگزیر ہے۔ 

اگر ٹیسٹ رپو رٹ نیگیٹوآئے،تب بھی ہیپاٹائٹس کی ویکسی نیشن ضرور کروائیں کہ یہ95فی صد مؤثر ہے اوراس سے کم ازکم 20سال تک مرض سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ٹیسٹ مثبت آنے کی صُورت میںعلاج لازماً کروایا جائے۔ علاوہ ازیں، ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لیے انجیکشنز اور ڈرپس کے غیر ضروری استعمال سے گریز کریں۔طبّی عملہ سرجیکل آلات مناسب جراثیم کُش طریقے سے اسٹرلائیز کرے۔ عطیہ کردہ خون کی مناسب جانچ کے لیے این اے ٹی (Nucleic acid testing) کروائیں۔ یاد رکھیے، عوامی بیداری اور شعور کے بغیر ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کی کام یابی ممکن نہیں۔ (مضمون نگار، معروف گیسٹرو انٹرولوجسٹ ہیں اور ضیاء الدین یونی ورسٹی اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان سوسائٹی فاردی اسٹڈی آف لیورڈیزز کے صدر بھی ہیں)

تازہ ترین