افغانستان، امریکی افواج کے انخلا کے بعد تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ماہِ جون کے وسط میں اسلام آباد کے دَورے پر آئے افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے، ٹامس نکلسن نے خبردار کیا کہ آنے والے چند ہفتوں اور مہینوں میں افغانستان میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے، جسے روکنے کے لیے دوحا مذاکرات میں جلد از جلد پیش رفت ضروری ہے۔ اس کے ایک ہفتے بعد انٹرنیشنل سکیوریٹی کے سلسلے میں منعقد ہونے والی نویں ماسکو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روس کے وزیرِ دفاع نے بھی عالمی برادری کو خبردار کیا کہ گزشتہ دو عشروں کے دَوران امریکی اور نیٹو فورسز مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔
امریکی فوج کے انخلا کے بعد خطّے میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔روسی وزیرِ دفاع کی اِس گفتگو سے ایک روز پہلے امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان، نیڈ پرائس نے افغان طالبان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا افغانستان میں طاقت کے ذریعے مسلّط کردہ حکومت قبول نہیں کرے گی۔ افغانستان کے لیے امریکی مالی امداد صرف اسی صورت جاری رہ سکتی ہے،جب اس مُلک میں ایسی حکومت بنے، جسے سب تسلیم کریں۔ علاوہ ازیں،29 جون کو کابل میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں امریکی کمانڈر، جنرل اسکاٹ ملر نے بھی طالبان کو خبردار کیا کہ اگر اُنہوں نے قبضے اور پُرتشدّد حملوں کا سلسلہ ختم نہ کیا، تو پھر وہ فضائی حملوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔
انخلا کا عمل جاری رہنے کے باوجود امریکی فوج، طالبان کے خلاف فضائی حملوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔واضح رہے، دوحا معاہدے کے بعد گزشتہ برس ماہِ ستمبر میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا، لیکن تاحال اُن میں کوئی خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔اِس وقت بھی طالبان اور اشرف غنی حکومت میں گفت و شنید کا سلسلہ عملاً تعطّل کا شکار ہے۔ ماہِ اپریل میں امریکی صدر، جوبائیڈن نے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا اور عالمی برادری کو بتایا کہ رواں برس گیارہ ستمبر تک امریکی افواج افغانستان سے نکال لی جائیں گی۔چناں چہ، یکم مئی کو امریکی افواج کا انخلا شروع ہوا اور اس کے بعد ہی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
نائن الیون کے بعد امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان پر یلغار کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ افغان عوام کو غیر مہذّب، اُجڈ اور وحشی طالبان سے نجات دِلانے کے بعد افغانستان کی تعمیرِ نو کے خواہاں ہیں، لیکن گزشتہ دو عشروں کے دَوران ڈیڑھ لاکھ افغانوں، ڈھائی ہزار سے زاید امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور دو اعشاریہ 261کھرب ڈالرز صَرف کرنے کے بعد بھی امریکا اور اس کے اتحادی اپنے اِس مقصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام دِکھائی دیتے ہیں۔ جہاں تک افغان عوام کو طالبان سے نجات دِلانے کا تعلق ہے، تو اس میں شک نہیں کہ اتحادی افواج نے عسکری طاقت کے بل بوتے پر 2001ء میں طالبان کی حکومت ختم کی، لیکن کچھ مخصوص لسانی اور نسلی گروہوں کو چھوڑ کر باقی افغان عوام کے دِلوں سے وہ اُنہیں نہیں نکال پائے۔
اس کا سب سے بڑا ثبوت طالبان کی20 سالہ کام یاب مزاحمتی جدوجہد ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی گوریلا لڑائی عوامی حمایت کے بغیر کام یاب نہیں ہو پاتی۔اگرچہ، امریکی فوجی طاقت نے طالبان کو اقتدار سے محروم کردیا، لیکن اس کے باوجود دیہی علاقوں میں عام افغانی شہری اپنے تنازعات کے فیصلوں کے لیے انہی پر اعتماد کرتے رہے۔ چند برس پہلے پاکستانی صحافی، فیض اللہ خان کو غیر قانونی طور پر ڈیورنڈ لائن پار کرنے کے جرم میں افغان حکومت نے گرفتار کر کے جلال آباد جیل میں ڈال دیا تھا، جہاں وہ کئی ماہ تک قید رہے۔
رہائی کے بعد اُنہوں نے اپنی کتاب’’ ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ میں لکھا کہ افغان عوام اب بھی سرکاری قاضی صاحبان سے کہیں زیادہ طالبان رہنماؤں پر اعتماد کرتے ہیں۔حتیٰ کہ وہ اپنے مسائل اور تنازعات کے لیے جیل میں قید مقامی طالبان رہنماوں سے رجوع کرتے ہیں۔ اگر افغان طالبان کی مزاحمتی جدوجہد کا غیر جانب داری سے بنظرِ عمیق جائزہ لیا جائے، تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ اُنہوں نے اِس لڑائی کے دَوران ثابت کیا کہ وہ بہترین جنگ جُو ، منصوبہ ساز، سفارت کار، فاتح، منتظم اور بہترین حکم ران ہیں۔اس سلسلے میں صرف دو مثالیں پیش ہیں۔2011ء میں امریکی انٹیلی جینس ایجینسی، سی آئی اے نے ایک پراجیکٹ لانچ کیا، جس کے لیے کروڑوں ڈالرز مختص کیے گئے۔
اِس منہگے ترین پراجیکٹ کا واحد مقصد یہ تھا کہ افغان طالبان کے خلاف اِتنا زیادہ اور مختلف النّوع پروپیگنڈا کیا جائے کہ افغان عوام ان سے متنفر ہو جائیں۔طالبان قیادت نے اس کے جواب میں فوری طور پر اپنا ضابطۂ اخلاق جاری کر دیا، جس کی پابندی ہر طالب کے لیے لازم قرار دی گئی۔ڈیڑھ انچ چوڑے، دو انچ لمبے اور 44 صفحات پر مشتمل، جیبی سائز کے اس کتابچے کو’’ لائحہ ‘‘ کا نام دیا گیا، جس میں واضح طور پر درج تھا کہ افغان طالبان ایسی گوریلا کارروائیوں سے گریز کریں، جن میں افغان عوام کو گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔طالبان قیادت کی طرف سے ہدایت جاری کی گئی کہ یہ ’’لائحہ ‘‘ ہر طالب کی جیب میں موجود رہنا چاہیے۔ طالبان کی مزاحمتی جدوجہد پر گہری نگاہ رکھنے والے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چند روپوں کی لاگت سے چَھپوائے گئے اس’’ لائحہ ‘‘نے سی آئی اے کے کروڑوں ڈالرز کا پراجیکٹ ناکام بنادیا۔
گزشتہ بیس سالہ لڑائی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ دو بدو مقابلے میں بھی اکثر طالبان کا پلڑا بھاری رہا۔اس دوران خاص طور پر ہلمند اور قندھار امریکی، برطانوی اور کینیڈین فوجی دستوں کے لیے دہکتے تندور کا منظر پیش کرتے رہے۔ سی آئی اے کے منصوبہ سازوں نے اس صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے طالبان قیادت میں پھوٹ ڈلوانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لیے مُلّا عُمر کے قریبی ساتھی، ملّا اختر عثمانی کا انتخاب کیا گیا۔ صوبہ ہلمند کے ایک معروف دینی اور علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملّا اختر عثمانی طالبان تحریک کے اساسی رہنما تھے۔ملّا عُمر کے دَورِ حکومت میں وہ صوبہ بلخ کے انتظامی امور کے نگران، قندھار کے پولیس چیف اور کور کمانڈر بھی رہے۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بکھرے طالبان کو یک جا کرنے میں بھی اُن کا اہم کردار رہا۔2008 ء میں سی آئی اے نے ملّا اختر عثمانی کی تلاش شروع کی، جو جلد ہی اُن کے ہاتھ لگ گئے۔اُن کے ساتھ گفت و شنید کا آغاز ہوا، جس کے لیے پہلے اُنہیں دبئی پھر سنگاپور اور جرمنی لے جایا گیا۔آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کے دَوران اُن پر کئی ملین ڈالرز خرچ کیے گئے۔سی آئی اے کا یہ’’ خاص مہمان‘‘ رقم وصول کرتے کرتے ایک روز اچانک غائب ہو گیا۔تب کچھ علاقائی واقفانِ حال نے امریکیوں کو بتایا کہ وہ شخص تو محض ایک دُکان دار تھا، جسے طالبان نے ملّا اختر عثمانی بنا کر سی آئی اے کے روبرو پیش کر دیا۔
یوں اس جعلی ملّا اختر عثمانی نے سی آئی اے سے جتنی رقم وصول کی، وہ سب طالبان کے پاس پہنچ گئی۔علاوہ ازیں، 2012 ء میں طالبان نے خوست میں ایک بڑا حملہ کیا، جس میں سی آئی اے کا اسٹیشن چیف مارا گیا۔ یہ سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا نقصان تھا۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امریکی ادارے اپنی اسی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بعض علاقائی قوّتوں اور مقامی وار لارڈز کے ذریعے افغانستان میں خانہ جنگی کو ہوا دے رہے ہیں۔افغانستان پر حملے کے وقت امریکی حکّام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تباہ حال افغانستان کی تعمیرِ نو میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
وہ اِس دعوے میں کس حد تک کام یاب رہے،اس کی تفصیل افغان امور کے حوالے سے معروف پاکستانی صحافی، احمد رشید نے اپنی کتاب’’ امریکا کی بدعہدی: افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا میں انتشار ‘‘ میں بیان کی ہے۔2001 ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد احمد رشید نے یو ایس ایڈ کے سربراہ، Andrew Natsios کو مشورہ دیا کہ اُنہیں افغانستان میں فوری طور پر دو کام کرنے چاہیئں۔وہاں کی 80 فی صد آبادی کی گزر بسر زراعت پر ہے۔اِس لیے فی الفور زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔اس کے نتیجے میں اگر اچھی فصل ہوئی، تو دیہات میں لوگوں کے حوصلے بلند ہو جائیں گے۔روزگار کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرنے والے افغانی واپس اپنے دیہات چلے جائیں گے۔
کسانوں کو پوست کی جگہ دوسری فصلیں کاشت کرنے پر مائل کیا جا سکے گا۔نجی ملیشیاز کو تحلیل کرکے اُن کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو بھی زرعی شعبے میں کھپایا جا سکے گا۔فوری ضرورت کا دوسرا کام، بڑے شہروں کے درمیان رابطہ سڑکوں کی تعمیرِ نو ہے۔ان شاہ راہوں کی تعمیر کے بعد بڑے شہروں کا دیہات سے زمینی رابطہ بحال ہو جائے گا، جس کے بعد امداد وسیع پیمانے پر تقسیم ہو سکے گی اور زیادہ سے زیادہ افغان عوام اس سے مستفید ہوں گے۔یو ایس ایڈ کے سربراہ نے اِن دونوں تجاویز سے اتفاق کیا، لیکن انھیں پینٹاگون میں رمز فیلڈ اور سی آئی اے میں جارج ٹینٹ نے مسترد کردیا۔
سی آئی اے چاہتی تھی کہ جو بھی پروگرام ہو، وہ صرف اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے ہو اور تعمیرِ نو کی بجائے قبائلی وار لارڈز میں رقوم تقسیم کرنے کے لیے ہو۔دوسری طرف، یو ایس ایڈ نے تعمیرِ نو کے نام پر لاکھوں ڈالرز ایسے ٹھیکے داروں کو دئیے، جو افغانستان میں موجود ہی نہیں تھے۔احمد رشید کے مطابق’’ افغانستان میں طویل المدّتی منصوبوں کی بجائے فوری نتائج کے منصوبے امریکا کے پسندیدہ منصوبے بن گئے۔یہ تیزی سے اور کم خرچ پر مکمل ہوتے۔ مثلاً کنویں کی کھدائی، چھوٹے پُل کی تعمیرِ نو، خستہ حال اسکولز کی مرمّت۔
یہ چھوٹےچھوٹے کام اس امید پر کیے جا رہے تھے کہ مقامی آبادی سمجھے کہ تعمیرِ نو کا کام آگے بڑھ رہا ہے، مگر معاملہ اس کے اُلٹ تھا۔ یعنی فائدہ اُن قبائلی وار لارڈز اور مقامی کمانڈرز کو ہو رہا تھا، جنہیں سی آئی اے کی حمایت حاصل تھی۔رپورٹر، Stephen Kinzerنے لکھا کہ امریکا نے جو راستہ چُنا، اُس سے یہی ضمانت ملتی ہے کہ افغانستان کھنڈر کی صُورت ہی میں رہے گا۔قبائلی وارلارڈز کا مُلک کے بہت بڑے علاقے پر غلبہ اور حکم رانی رہے گی اور یہ کہ طالبان کی باقیات ایک بار پھر لڑاکا لشکروں کی صُورت میں سامنے آئیں گی۔‘‘احمد رشید کی یہ کتاب بارہ برس پہلے منظرِ عام پر آئی تھی۔امریکی صحافی، Stephen Kinzer کا تجزیہ آج بالکل سچ ثابت ہو رہا ہے۔
2013 ء میں امریکیوں نے کئی افغان صوبوں میں جرائم پیشہ لوگوں کو خرید کر نجی ملیشیاز کھڑی کیں۔انہیں مہلک ہتھیاروں سے مسلّح کیا گیا تاکہ وہ طالبان کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ ملیشیاز 2018ء تک کام کرتی رہیں۔مصدّقہ اطلاعات کے مطابق، مشہور افغان جنرل، بسم اللہ خان نے وزیرِ دفاع بننے کے بعد انہیں دوبارہ مسلّح کرنا شروع کر دیا ہے۔ واضح رہے، ماہِ جون کے آخری ہفتے میں افغان وزارتِ داخلہ کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ افغانستان میں چار ہزار افراد پر مشتمل ایک ’’ ریپڈ ری ایکشن فورس ‘‘ تشکیل دے دی گئی ہے، جس کی قیادت افغان آرمی کے ریٹائرڈ جرنیل کریں گے۔یہ فورس باقاعدہ سکیوریٹی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کا مقابلہ کرے گی۔
افغانستان میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صُورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والے ذرائع بتاتے ہیں کہ امریکی فوج کا انخلا شروع ہوتے ہی افغان طالبان بھی متحرّک ہو گئے اور اُنہوں نے مُلک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ماہِ جون کا آغاز ہوتے ہی طالبان کی شمالی کمان حرکت میں آئی اور اُنہوں نے صرف دو ہفتے کے اندر تاجکستان کی پوری سرحدی پٹی پر قبضہ کر لیا تاکہ کوئی غیر مُلکی قوّت تاجکستان میں بیٹھ کر افغانستان کو ڈسٹرب نہ کر سکے۔ان کی اس جنگی کارروائی کا اختتام 22 جون کو بندر شیر خان پر قبضے کی صُورت میں ہوا، جہاں افغان نیشنل آرمی کے کچھ جوانوں نے ہتھیار ڈال دیے اور کچھ طالبان سے لڑے بغیر ہی فرار ہو گئے۔ مزار شریف کے اطراف میں طالبان کا قبضہ ہو چُکا ہے۔
قندوز میں بھی دارالحکومت کو چھوڑ کر باقی اہم علاقے اور بغلان کے کئی اضلاع بھی اُن کے کنٹرول میں آ چُکے ہیں۔ صرف چند صوبائی دارالحکومت اس وقت اشرف غنی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ گھمسان کی لڑائی کا زیادہ خدشہ صوبہ بلخ، مزار شریف شہر، قندوز اور بغلان میں ہے، جب کہ بڑا معرکہ کابل میں ہو گا۔ذرائع کے مطابق، کابل پر طالبان کے قبضے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے، کیوں کہ افغانستان میں صُورتِ حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، لیکن قوی امکان یہی ہے کہ امریکی فوجوں کا انخلا مکمل ہونے کے بعد اشرف غنی حکومت طالبان کے سامنے زیادہ دن نہیں ٹھہر پائے گی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کسی کے بھی فائدے میں نہیں ہے۔یہ بات طے ہے کہ اگر کابل اور قندھار کا گلشن مہکے گا، تو اس کی خوش بُو سب سے پہلے پاکستان کو معطّر کرے گی۔اگر وہاں آگ بھڑکے گی، تو اس کی تپش بھی سب سے پہلے پاکستان میں محسوس کی جائے گی۔اور اگر پاکستان ڈسٹرب ہوگا، تو پھر وسط ایشیا کی طرف تجارت کے راستے نہیں کُھل پائیں گے۔